! نوجوان نسل | زندگی کے اصل مقصد سے غافل فکر ادراک

حافظ جنید احمد بٹ

کوئی آج تک نہ سمجھا یہ شباب ہے تو کیا ہے
یہی جاگنے کے دن ہیں یہی نیند کازمانہ ہے
انسانی معاشرہ جس رفتار سے تعمیر و ترقی میں آگے بڑھ رہا ہے، اُسی رفتار سے آپسی تنافس اور مقابلہ آرائی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایک فرد دوسرے فرد ،ایک گھر کو دوسرے گھر، ایک خاندان کو دوسرے خاندان ،ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے ،ایک قوم کو دوسرے قوم سے مقابلہ آرائی ہے ۔ہر ایک دوسرے پچھاڑنے کے فراق میں ہے۔اسی وجہ سے موجودہ دور میں کمزوروں اور زیر دستوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔مقابلے کی دوڑ میںپیچھے رہنے والے انسان کچل جاتے ہیں،ان کی آہ و بکا نہیں سنی جاتی ،ان کی داد رسی کے لئے کوئی سامنے نہیں آتا ہے ۔ ،ہر قوم کے افراد اپنے قومی مفادکے لئے ہر غیر اخلاقی کیا بلکہ مجرمانہ فعال کرنے کو تیار ہیں۔ ایسے میں اس دجل و فریب کے مقابلے کے لئے عزم ،ہمت و استقلال کی ضرورت ہے۔ بلند حوصلوں اورمصمم ارادوں کی ضرورت ہے ۔ جوان اور اُن کی قوت کی دولت ـ امتِ مسلمہ کو اللہ تعالی ٰ نے وافر مقدار میں عطا کی ہے ۔ اعدادا شمار کے مطابق تقریباً نصف حصہ 25سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوان ہی قوم و ملت کا اصلی سرمایہ ہے ۔دوسرے اقوام کے مقابلے میںمسلم دنیا میں نوجوانوں کی زیادہ تعدادکی وجہ سے مسلم دنیا کو اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا چاہے تھا۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے آج مسلم دنیا میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود اُن کی حالت پست ہے،جس کے بہت سارے داخلی و خارجی وجوہات کار فرما ہیں۔جس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے ۔
مسلم دنیا میں نوجوانوں کی کثیر تعداد جہاں اپنے دین سے کوسو ںدور ہیں، و ہیں مقصد زندگی کی نظروں سے اوجھل بھی نظر آرہے ہیں ۔ کہیں سرکاری نوکری کی حصولیابی زندگی کا مقصد بنا ہوا ہے،کہیں اپنی حریم ذات کا طواف ہو رہا ہے اور کہیں حسن کے جلوے مدہوش کر دیتے ہیں ۔ اپنے ماں باپ کے سائے تلے زندگی گزار نے والے اکثر نوجوان یونیورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی بڑے اور باشعور نظر نہیں آرہے ہیں ۔ دراصل مسلم نوجوان اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کو ہی بھول بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں باطل ہر سطح پر اُسے کمزور کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہا ہے ۔اس ہدف میں ان کا اولین نشانہ شباب اسلامی ہے۔وہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کے فکری زوال کے خواہشمند ہیں اور اس کے لئے دن اور رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔ کہیں اخلاقی طور پر کمزور بنانے کے لئے حُسن و ساز کو میدان میںلایا جا رہا ہے ،کہیں فلموں اور ناچ نغموں کے ساتھ مشغول رکھا جا رہاہے ۔ جس کے نتیجے میںنوجوان نسل سے اُس کی قیمتی دولت تباہ و بُرباد ہو رہی ہے۔
بلا شبہ کچھ مصائب و آلام انسان کو پست ہمت کر دیتےہیں مگر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا ہی تو اصل زندگی کا نام ہے ۔ لیکن دورِ حاضرکی نوجوان نسل غموں کا سامنا نہیں کر پاتی ۔جب کوئی راستہ نہیں پاتے تو اپنی ہی زندگی کا خاتمہ کرنے پر تلے ہو جاتے ہیں ۔کچھ ڈپریشن کا شکار ہوجاتےہیں تو کچھ منشیات میں مبتلاجاتے ہیں ۔ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بجائے زندگی سے ہی شکایت کرنے لگتےہیںاور اس طرح اپنےحوصلے کی ناپختہ گی اور پستی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیںحالانکہ جس طرح خوشی کی ایک مدت ہوتی ہے اُسی طرح غم کی بھی ہوتی ہے ۔گویا نشیب و فراز زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہےمگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو خداوندہمیں کسی مشکل میں ڈالتا ہے وہی اس سے باہر بھی نکال لیتا ہے۔درحقیقت زندگی خوشیوں اور غموں کا ایک سنگم ہی تو ہے ۔اسی لئے حکمت والے بحر ِ زندگی کے کنارے سلامتی و عافیت کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں اور جاہل اُس میں غرق ہوجاتے ہیں۔زندگی انسان کے لئے چند دِنوں کا مستعار وقفہ ہے،کب یہ وقفہ ختم ہوجائے،کسی کو خبر نہیںہے۔اس لئے نوجوانان ِ ملت کو تمام بہکاووںسے باہر آکر اپنی زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی اشد ضروت ہے ۔ ایک ایسے نمونے کو سامنے رکھ کر اپنی جوانی کے قیمتی دن گزارنے ہوں گے،جو نمونہ اسکو دنیا اور آخرت دونوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکے اور اس میں ذرا بھرشک کی گنجائش نہیںکہ وہ نمونہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہے۔جب تک نہ ہمارے معاشرے کانوجوان اپنی زندگی کے رنگ اپنےپیارے نبیؐکے رنگ میں نہ رنگے، تب تک کامیابی کے بارے میں کوئی بات سوچنا نوجوان کے لئے ایک غلط فہمی ہوگی۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ نوجوان نسل دوسروں کی تحریروں سے اپنی زندگی کی اصلاح و ترقی اس طرح سےحاصل کرنا شروع کریں کہ جن سے زندگی کے ایسے مدارج و منازل با آسانی طے ہوسکیں جن تک بڑے ہمت والے اور باعزم لوگ پہنچ پاتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے اسی نوجوان کی جوانی کے بارے میں کہا ہے ؎
اس قوم کو شمشیر کی حاجب نہیں رہتی
ہو جس کے نوجوانوں کی خودی صورت ِفولاد
(رابط ستورہ، ترال؛فون نمبر7006474903)