نوجوان فکری و سیاسی استحصال کا شکار فکر انگیز

عادل فراز

 

ملک میں سیاسی انارکیت اور سماجی نفرت دن بہ دن افزوں ہوتی جارہی ہے ۔مذہبی و طبقاتی منافرت تو ایک طرف ،اب بے روزگاری اور حکومتی پالیسیوں کی مخالفت میں ملک کا نوجوان سڑکوں پر ہے ۔احتجاج تو ہر شخص کا جمہوری حق ہے مگر احتجاجی مظاہرے تشدد میں بدل رہے ہیں ۔نوجوان طبقہ جسے ہم ملک کا خوش آیند مستقبل کہتے ہیں، مائل بہ تشدد ہے ۔بے شک پُر تشدد احتجاجات کسی مسئلے کا سنجیدہ حل نہیں ہوسکتے ،لیکن ان احتجاجات کے پس منظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔حکومت کی پالسیوں،فیصلوں پرجوانوں کے عدم اطمینان نے ملک کو دِگرگوںصورتحال سے دوچار کردیاہے ۔ چنانچہ ملک کا نوجوان عرصۂ دراز سے مسائل کا  شکار ہے،اس لئےاُن کی توجہ ہٹانے کے لئے کئی منافر گروہ وں نےانہیں اپنے سیاسی مفاد کے لئے مشتعل ہونا سکھایاہےاوریہ نوجوان آج سرکار کے لئے درد سر بنا ہواہے ۔اگر سرکار نوجوانوں کے اعتماد کو جیتنے میں کامیاب نہیں ہوگی،اُن کی صلاحیتوں کو غلط جہات میں بروئے کار لانے والی جماعتوں پر شکنجہ نہیں کَسے گی توملک کے حالات مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے ۔نوجوانوںکے اندر اتنی صلاحیت اورلیاقت موجود ہوتی ہے کہ وہ ملک کے سیاسی و سماجی دھارے کا رخ موڑ سکیں،بشرطیکہ ان کی صلاحیتوں کا بروقت اور صحیح استعمال کیا جائے ۔

 

اگر یہی نوجوان غلط ہاتھوں میں پڑ جائے تو ملک کی سلامتی کے لئے بڑاخطرہ ثابت ہوسکتاہے ۔اس لئے نوجوانوں کو صحیح رہنمائی کی اشد ضرورت ہے ۔’اگنی پتھ‘ اسیکم کے خلاف جس طرح کا رویہ سامنے آرہاہے ،وہ چونکانے والا ہے ، گویانوجوان مذہب زدہ سیاست سے تنگ آچکاہے ۔البتہ مظاہرے میں شامل اکثر نوجوان آج بھی مندر مسجد کی سیاست کے شکار ہیں۔ لیکن جب اُن کے شخصی مفادات پر آنچ آتی ہےتو ان کا سویا ہوا ضمیر انگڑائیاں لینے لگتاہے ۔چونکہ کئی ممالک طرح ہمارا ملک بھی مہنگائی اور بےروزگاری کے لپیٹے میں ہے، اس لئے نوجوان حکومت کے تئیں عدم اطمینان کا شکار ہے ۔اگرچہ ہمارے جوانوں میں حب الوطنی کا جذبہ دیگر ممالک سے زیادہ ممتاز ہے اورہمارا نوجوان مادر وطن کے لئے جان کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرتا ،اس لئے وہ سرکار سے توقعات کا اُمیدوار بھی رہتاہے ۔ اس لئے اگر ملک کا نوجوان وقتی معاہدہ کے تحت فوجی ملازمت اختیار کرے گا تو اس کے معاش کے مسائل حل نہیں ہوں گے ،جس کی بنیاد پر ملک کی سلامتی سے کمپرومائز ممکن ہے ۔دوسری صورتحال زیادہ سنگین اور توجہ طلب ہے ۔اگر ہماری سرکار سپاہیوںکے معاشی مسائل پر خاص توجہ مرکوز نہیں کرےگی تو اس کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑ سکتاہے ،جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ نوجوانوں کو بے راہ روی کا شکار ہونےسے بچانا بھی سرکار کی اولین ذمہ داری ہے ۔اگرنوجوان فکری بے راہ روی کا شکار ہوتاہے تو ہمارے داخلی مسائل مزید پیچیدہ ہوجائیں گے ۔فکری بے راہ روی سے حفاظت کا پہلا قدم افراطی تنظیموں پر قابو پانا ہے ،خواہ وہ کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتی ہوں۔

 

ہندوستان کے مستقبل کے لئے یہ خوش آیند نہیں ہے کہ ہمارا نوجوان مائل بہ تشدد ہو ۔اس وقت ملک کا نوجوان ذہنی کشمکش اور داخلی شکست و ریخت کا شکار ہے ۔یہ صورتحال کسی ایک مذہب اور طبقے میں محدود نہیں ہے ۔نوجوانوں کی اکثریت اپنے مستقبل کو لیکر فکر مند ہے ۔بے روزگاری اور سیاسی عفونت نے ان کی نفسیات کو شدید نقصان پہونچایاہے ۔اس صورتحال پر قابو پانا نہایت ضروری ہے تاکہ نوجوان تشدد کی طرف مائل نہ ہوں۔ملک میں بڑھتی ہوئی سماجی نفرت نے نوجوانوں کے دل و دماغ کو متاثر کیاہے ۔اترپردیش میں خاص طورپر ’بلڈوزر کلچر‘ نے نوجوانوں کو سرکار سے بدظن کردیاہے ۔ایک دوسرے کے مذہبی احساسات اور مقدسات کے احترام کا جذبہ ختم ہوتاجارہاہے ۔اکثریتی طبقے کے دل و دماغ میں اقلیتی طبقات کے خلاف زہر بھر دیاگیاہے ،جن پر ابھی تک سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ہے ۔بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف جو غم و غصہ عوام کے اندر پنپ رہاہے ،مذہبی جنون اس آگ میں تیل کا کام کرسکتاہے ۔کیونکہ منافرتنظیموں نے نوجوانوں کو جس طرح کی تربیت دی ہے ،اس کا خمیازہ فقط مسلمان ہی نہیں بھگتنا ہوگا بلکہ پورا ملک اس کی زد میں آئے گا ۔اس لئے سرکار اور حفاظتی ایجنسیوں کو اس راہ میں تیزی سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو بے راہ روی سے محفوظ رکھا جاسکے ۔

 

یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ گجرات ،مظفر نگر اور دہلی فسادات تک منافر تنظیموں نے ملک کے نوجوانوں کا غلط استعمال کیا۔نوجوانوں کی صلاحیتوں کا غلط استعمال یک طرفہ نہیں ہے بلکہ ہر مذہب اور مسلک کی متشدد جماعتیں اور غیر سنجیدہ عناصر اس راہ میں بہت پہلے سے کام کرتے آرہے ہیں ۔کسی بھی نوجوان کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کرنے لئے مذہب اور عقیدہ سے موثر کوئی دوسرا ہتھیار نہیں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام تر تخریب کاریاں حکومت اور قانونی ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ہوتی رہتی ہیں ،مگران کے خلاف کبھی کوئی موثرقدم نہیں اٹھایا گیا ۔اگر کبھی ایسے افراد کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی تو اس میں مذہب اور سیاست کوپیش نظر رکھا گیا جس کا خمیازہ آج ملک کوبھگتنا پڑرہاہے ۔افسوس یہ ہے کہ گذشتہ ستّر سالوں میں مسلمانوں نے حکومتی شعبوں میں نفوذ کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ان کے سیاسی آقائوں نے انہیں سیاسی غلامی اور دلالی پر مجبور کردیا ۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی نہیں رہا اور اس کے سیاسی آقائوں نے بھی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔موجودہ حالات میں ملک کا مسلمان خود کو بے دست و پا محسوس کررہاہے ۔کیونکہ جس قوم کے پاس مخلص اور دوراندیش مرکزی قیادت موجود نہ ہو وہ قوم خود ترحُمی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے ۔لیکن ہم موجودہ صورتحال سے اس قدر ناامید بھی نہیں ہیں کہ یکسر حالات نہیں بدلیں گے ۔اس وقت ملک کا نوجوان سماجی و سیاسی بحران کو اچھی طرح سمجھ رہاہے ۔نوجوان طبقہ ذہنی کشمکش کا شکار ہے اوراس کے جذبات بے قابو ہوتے جارہے ہیں ۔اس وقت نوجوانوں کےبے قابو جذبات کو صحیح جہت دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ان کے درمیان بصیر اور باشعور افرادموجودنہیں ہیں ۔یقیناً ایسے افراد موجود ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو برمحل استعمال کرنا جانتےہیں ،بس ان افراد کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ ہمیں یقین ہے انہی نوجوانوں کے درمیان سے ہماری قومی قیادت نکل کر سامنے آئے گی ۔ ہمارا نوجوان مذہب بیزار نہیںبلکہ مذہبی رہنمائوں سے دل برداشتہ ہے ۔

(رابطہ۔7355488037)[email protected]