نماز۔ قیامت کے دن نجات کا ذریعہ ! بنیادی رُکن

ڈاکٹر آسی خرم

قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز پڑھنے والے اہل ِ ایمان کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ اسلام میں نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے نماز کوایمان کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا‘‘۔ (سورۃ البقرہ ، ۱۴۳) یعنی جو لوگ بیت المقدس کی طرف نماز پڑ ھتے ہوئے وفات پاگئے، اب خانہ کعبہ کی طرف تحویل قبلہ ہو جانے سے ان کی نمازوں کو اللہ تعالیٰ برباد نہیں کرےگا۔ (صحیح بخاری)
نماز کو لفظ ’’ایمان‘‘سے تعبیر کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اعمال صالحہ (جو ایمان میں داخل ہیں) میں نماز کو اوّلین درجہ حاصل ہے۔ دیگر اعمال صالحہ کے مقابلے میں نماز کویہ بھی حیثیت حاصل ہے کہ نماز نہ ہونے کی صورت میں اللہ کے نزدیک کوئی بھی نیک عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکے گا۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے’’ بندے سے (حقوق اللہ میں) سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھ ہوگی، اگر نماز ضایع کی، تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔(جامع ترمذی) یعنی نہ تو اس کا روز ہ قبول ہوگا، نہ حج اور نہ زکوٰۃ۔ اسلام میں نماز کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی ہو تا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری وقت، اور وصال سے قبل، جو آخری وصیت امت کو کی تھی، وہ نماز ہی کی وصیت تھی۔ آپؐ پر جان کنی کی حالت طاری تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے’’الصلاۃ الصلاۃ‘‘ یعنی نماز کا خیال رکھنا،نماز کا خیال رکھنا۔آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہی میں تھی۔ آپ ؐکا ارشاد ہے ’’ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کردی گئی ہے‘‘۔ (سنن نسائی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے، اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔(طبرانی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: والدین کی فرماں برداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کون سا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایمان دار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا، اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ (طبرانی، بیہقی، مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اس کی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ (صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا گیا۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (ترمذی، مسند احمد) حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (نسائی، بیہقی، مسند احمد)
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی: نماز، نماز۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ ؐنے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں ،جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) ۔ (بخاری ،مسلم)