نظمیں

ماں
ایسی ہستی کوئی کہاں ہوتی ہے
جیسی دنیا میں ماں ہوتی ہے

دل میں سب درد چھپائے رکھتی ہے
آہ سینے میں دبائے رکھتی ہے
خوشی چہرے پہ سجائے رکھتی ہے
دل ہتھیلی پہ لائے رکھتی ہے
محبت اسکی ایسے عیاں ہوتی ہے
جیسی دنیا میں ماں ہوتی ہے

دل ہی دل میں لیتی ہے وہ بلائیں
الگ سب سے ہیں اسکی ادائیں
صبح وشام دیتی ہے وہ دعائیں
چُھو سکتی نہیں پھر دُکھ کی ہوائیں
دعا کب اسکی رائیگاں ہوتی ہے
ایسی ہستی کوئی کہاں ہوتی ہے

وہ تو ہوتی ہے سب سے ہی جدا
کبھی ہوتی نہیں ہے ہم سے خفا
جلد اسکی سن لیتا ہے خدا
کرتی رہتی ہے وہ التجا
محبت رگ رگ میں اسکی پنہاں ہوتی ہے
جیسی دنیا میں ماں ہوتی ہے

اک طرف ماں اک طرف ہو جہاں
بات اسکی ہے مثلِ اذاں
چہرہ اس کا ہوتا ہے گلستاں
سحر دیتی ہے رہتی ہے وہ ہرپل جاں
مشکل ہر اک پھر دھواں ہوتی ہے
ایسی ہستی کوئی کہاں ہوتی ہے

دیوانہ آتا ہے
گہہ ساغر کوئی مجنو ں گہہ پیمانہ لاتا ہے
کمال ِ وجد میں مجھ کو نظر میخانہ آتا ہے
چلو مہجورؔ کی نگری میں جاکر دیکھ لیں عُشاقؔ
یہاں کیا کوئی ملنے کو ہمیں فرزانہ آتا ہے
یہی ہے شکر مولیٰ کا ابھی ہے زندگی قائم
ابھی خستہ میں ملنے کو ہر اک انجان آتا ہے
اجل کی آنچ سے اب تک بچا ہے آشیاں لیکن
مقام ِ عدم بھی ہمکو نظر ویرانہ آتا ہے
سنا ہے بعدِ مُردن بھی کہیں راحت نہیں ملتی
مقام ِ لحد خاکی کو نظر تہہ خانہ آتا ہے
کنارے ڈل کے بیٹھا ہوں لئے تو حید کا ساغر
یہیں پر بادہ خواروں کو لئے میخانہ آتا ہے
ہے ممکن نورشاہؔ قبلہ یہاں بھولے سے آجائیں
کہ جن کے جنبش لب سے اُبھر افسانہ آتا ہے
نگاہیں تشنہ لب آذرؔ قدم بوسی کو اُٹھتی ہیں
بھری محفل میں جب گاہےکوئی دیوانہ آتا ہے
مقامِ عرش پر خود کو بھلا کیوں کر نہ میں سمجھو
بہ دستِ شوخ یارو جب مجھے پیمانہ آتا ہے
خیال و فکر کا ساگر پیئے آزار ہے عُشاقؔ
اب اپنے گھر میں ہی اپنا نظر بیگانہ آتا ہے

عُشاق ؔکشتواڑی
صدر انجمن ترقیٔ اُردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469