نظمیں

خوشبو کی کاشت
دعا ایسے ہی تھی لب پہ
اٹھائے ہاته بھی خالی
کہ نظروں کو اچھالا تھا
جو پتھرائی آنکھوں سے
فلک کی اور…..!!
فلک جو آج بھی شک کا عجوبہ ہے
یہاں پھر ابر کے خیمو ں نے
دوشوں کو ملاکر
بستیاں آباد کر لی ہیں
سفید۔۔۔کالی
کہ جن کے چیتھڑوں سے شعائیں
سفر کی داستانیں
گھڑیوں میں یا
خضابی بال والی بنجارن کے آنچل میں باندھی جاتی ہیں
یہاں تو کہکشاں بھی تھے….!
مجھے پلکوں کو اب جاڑو بنانا سیکھنا ہوگا
فلک کی بستیوں کو صاف کرنا ہے
یہ بنجارے نکل جائیں
دعا کب سے کھڑی ہے
مانگنی ہے
میرے سائے تلے جتنی زمیں ہے
اسے اپنا بنانا ہے۔
یہاں بارش بچھانی ہے
مجھے خوشبو اُگانی ہے۔۔۔۔!

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

وہی لمحے
وہی گھڑیاں
وہی بے چارگی کے پل
وہی حسرت بھری آنکھیں
اور آنکھوں میں کسی اچھی خبر کا انتظارِ مستقل ہی ہے۔
وہی سڑکیں
وہی کاریں
وہی فٹ پاتھ پر سوتا ہوا جیون
جو کاروں سے کچل کر روز مرتا ہے
کبھی نیندوں ، کبھی خوابوں کی غفلت میں۔
وہی سردی
وہ برفیلی، جمانے والی لمبی راتوں کا غلبہ
کہ جن میں زندگی ننگے بدن آرام کرتی ہے۔
دلاسہ باپ اب بھی اپنے بچے کو دلاتا ہے
ہر اک چھوٹی سے چھوٹی خواہش اس کی
دلاسوں سے دباتا ہے۔
چھتیں اب بھی غریبوں کی ٹپکتی ہیں
ابھی بھی مائیں گیلے میں ہی سوتی ہیں۔
کہوں میں اور کیا آخر
زیادہ اب لکھا جاتا نہیں مجھے سے
یہی محسوس ہوتا ہے فقط تاریخ بدلی ہے
ہمارے دن نہیں بدلے

عمران قمر
رکن پور، شکوہ آباد ، اتر پردیش
موبائل نمبر؛8920472523

میرا کمرہ
میرے کمرے کی چار دیواریں
تکتی رہتی ہیں مجھ کو جانے کیوں
میں بھی تکتا ہوں ان کو بدلے میں
ایک چھت اور ایک پنکھا ہے
جس پہ جمتی ہے گرد کی چادر
ایک کھڑکی ہے جس کے دو پَٹ ہیں
ایک کھُلتا نہیں ہے کھولے سے
دوسرا تو کبھی نہیں کھولا
طاق پر اک پڑا ہے آئینہ
جس میں چہرہ کبھی نہیں دیکھا
ایک بستر ہے اَدھ بچھا جس میں
تیری یادوں کے آتشیں شعلے
سلوٹوں کو ابھار دیتے ہیں
جو کہ سونے سے باز رکھتی ہیں
ایک تکیہ ہے نیم عریاں سا
جس پہ دھبّے ہیں میرے اشکوں کے
اس پہ رکھتا ہوں ڈولتے سر کو
اور قصّے تمہاری چاہت کے
دل سناتا ہے وقفے وقفے سے
سنتا جاتا ہوں میں بھی چپ سادھے
دونوں آخر پہ رو ہی پڑتے ہیں
ایک کونے میں ایک الماری
جس میں دولت سنبھال رکھی ہے
میری سانسوں کا قیمتی حاصل
یعنی چھوٹا سا اک کتب خانہ
چند کاغذ سرہانے پڑتے ہیں
میرا برسوں کا ایک ساتھی ہے
میرے ہاتھوں میں ڈولتا اکثر
ایک پیارا قلم ہے جس سے، میں
لکھتا رہتا ہوں چار چھ باتیں
خالی پیالہ ہے جس سے میں اکثر
چائے پیتا ہوں سرد کر کر کے
ایک میں ہوں ساتھ میں میرے
ایک سایا ہے تیری صورت کا
خوب جمتی ہے بات آپس میں
روٹھ جائے تو بھاگ چھپتا ہے
ڈھونڈتا ہوں تو مل نہیں پاتا
پھر بجھا کر سبھی چراغوں کو
پھر سے آخر کو ڈھونڈ لیتا ہوں
سامنے سے ہے ایک دروازہ
کوئی آئے تو کھولتا آئے
یا میں جاؤں تو کھولتا جاؤں
کوئی آتا نہیں ہے کمرے میں
کوئی آئے تو آئے بھی کیوں کر
میں بھی باہر کبھی نہیں جاتا!

انجینئر تسنیم الرحمٰن حامیؔ
متعلم جامعہ کشمیرشعبہ طبیعیات
موبائل نمبر؛9419466642

آہ!
میرے برادر اکبر ماسٹر رانا سومناتھؔ

تقریبِ سماں ہے نہ کچھ نا ہی کوئی تہوار ہے
مغموم ہیں دیوار و در حسرت زدہ گھر بار ہے

ہرگز یہ بزم انبساط نہیں، ہے بزمِ تعزیت
آمد یہ کیوں نفوس کی قطار در قطار ہے

تھمتا ہی نہیں آنے جانے والوں کا یہ سلسلہ
آتا ہے جو وہ سوگوار ہے اور جاتا بھی سوگوار ہے

ہر سُو یہاں فضائے حسرت و حرماں محیط ہے
کیا جائے خانہ رانا سومناتھؔ معنیٔ مزار ہے

رحلت نے تیری بھائی میرے گُل یہ کھلائے
آتا ہے جو بھی گھر پہ ہے وہ اشکبار ہے

دُنیائے بے ثبات میں بھلا زندہ رہیگا کون
مرتا ہے اِک دِن شہنشاہ وہ نان گا رہے

کہتے تھے تجھے ماسٹر جی سب احترام سے
پیشہ یہی کیا پیشوں میں صدر افتخار ہے

دورانِ درس جو بھی رہا تیرا ہے متعلم
عصرِ رواں میں وہ خوش و خُرم پُر بہار ہے

ہر لب پہ تیرے حق میں ہے دعائے مغفرت
بعد از اجل نگہباں ترا اب پروردگار ہے

سوگوار
رانا جگدیش راج المخلص عُشاق کشتواڑی
کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469