نظمیں

سفر واپسی کا
کشتی بھی ہے
بھنور بھی ہے
ساحل تو ہے
پتوار نہیں!
پہلے تو خود ہی کشتی میں
ہم نے اتنے چھید کئے
گدلا پانی تو آئیگا۔
رونے سے اب کیا حاصل
ہم نے تو لنگر توڑ دیئے
کس پر بھروسہ کون کرے
وہ کھیون ہار کہاں؟
وہ تو ساحل تک بیچ چکے
ہم کو بھنور میں چھوڑ چکے
اب اُن کی چیخیں لاحاصل
جو ساحل سے ٹکراتی ہیں
اور واپس مڑ کے آتی ہیں

امداد ساقیؔ
لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛7780866097

بچپن
بچپن کی یاد دلائے موسم
پھر سے کاش وہ آئے موسم
وہ ماں بابا کا پیارا گھر
خوف ہی تھا نہ تھا کوئی ڈر

بے فکر اور سوجائے موسم
بچپن کی یاد دلائے موسم

کتنا سندر تھا وہ زمانہ
رات گئے تک آگ جلانا
دادی کا وہ کہانی سنانا
مان اپنی کا لوری گانا

دل کو آج تڑپائے موسم
بچپن کی یاد دلائے موسم

سردی کی وہ ٹھندی بارش
اور بچوں کی نت نئی سازش
شام سے سب دعاء کرتے تھے
برف کی سب کرتے تھے خواہش

صبح کو چہرے کھلائے موسم
بچپن کی یاد دلائے موسم

برف سے کیا کیا کھلونے بنانا
اور پھر اک دوجے کو ستانا
کسی کو ہنسانا کسی کو رُلانا
یاد بہت آئے وہ زمانہ

خیال کے تیر چلائے موسم
بچپن کی یاد دلائے موسم
پھر سے کاش وہ آئے موسم

ثمینہ سحرمرزاؔ
بڈھون، راجوری

حقیقت
گر چہ میں کم عمر ہی ہوں
تجربہ کار بھی اتنا نہیں ہوں
زندگی کے نشیب و فراز کا بھی
میں نے زیادہ سامنا نہیں کیا ہے ۔
پھر بھی
جتنا تجربہ حاصل ہے مجھے
جی ہوئی زندگی کا ۔
لوگوں سے مل جل کر
دوستوں کے رویوں سے
اور
احباب و اقارب کے برتاؤ
سے مجھے یہ بات
سچ ثابت ہوئی کہ
جس طرح اپنا سایہ بھی
اندھیرے میں ساتھ چھوڑ دیتا ہے
اسی طرح سبھی لوگ
بُرے اوقات میں ایک
انسان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں
اور
تب ہی یہ حقیقت سمجھ آتی ہے کہ
واقعی ایک اللہ کے سوا
کوئی دوست نہیں ہوسکتا ۔
مدد گار نہیں ہوسکتا ۔
مصیبتوں اور غموں کو
دور نہیں کرسکتا ۔
اور
سننے اور دیکھنا والابھی
صرف اور صرف
ایک ذات اللہ ہی کی ہے ۔

رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
[email protected]