نظمیں

دسمبری نظم
نئے خواب کا موسم

بچپن کی یادیں مٹھی میں بھر کے
تتلیاں ڈھونڈنے نکلا تھا
شبنم کے قطرے چُھو لئے
تو ہجر کے آبلے پُھوٹنے لگے
سرد ہوا کا جھونکا دل کی دھڑکن پہ آ گرا
بجھتی دھوپ نے سہارا دینا چاہا
کہ اندھیروں نے اپنا سائباں کھول دیا
سفر تھک چکا تھا
بند مٹھی کھولی
تو زرد موسم کے سوکھے پتے ہی ملے
ایک ایک کرتے گرتے رہے
خالی مٹھی میں خشک پتوں کی آوازیں دم توڑ نے لگیں
رات کے سائے روشنی کی دہلیز کب کے پار کرچکے ہیں
شب کی آغوش میں انگڑائیاں لیتے
گرم بستر میں سرد سلوٹوں کی سرگوشیاں
نئے خواب کا موسم بُن رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087

قطعات
راس آئی نہیں جب شراب مجھے
کہہ دیا دوستوں نے خراب مجھے

عمر ڈھلنے کے بعد وہ چارہ گر
دے گیا زندگی کی کتاب مجھے

کیا کچھ دیا تونے زمانے کو
سجاتا رہا اپنے آشیانے کو

تنکا بھی جن کے پاس نہیں سعیدؔ
سچا کبھی انہیں بسانے کو

چاہ جینے کی ہے عمر ڈھلنے کے بعد
خواب کیسا ہے یہ آنکھ کُھلنے کے بعد

وقت کھوکر بخت کیا دے گا سعیدؔ
کنکر سمیٹ لو گوہر لُٹانے کے بعد

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380.