نثار احمد صدیقی کی ’’انطباق‘‘ کامختصر جائزہ تبصرہ

ایس معشوق احمد

کسی شخصیت کے دل کا حال اور زندگی کے احوال جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے گفتگو کی جائے۔یہ بات چیت اگر کسی ادیب سے کی جائے تو اس سے نہ صرف اس کی شخصیت ، تعلیم و تربیت ، سوانحی کوائف جاننے کا موقع ملے گا بلکہ اس کی تخلیقات ، ادبی کارناموں ، ادب سے لگاؤ اور اس کے فن کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ادبی اصطلاح میں اس طرز گفتگو کو انٹرویو کہتے ہیں۔انٹرویو میں ایک ادیب اپنی خود نوشت ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے تجربات ، مشاہدات اور ان تمام عوامل کا تذکرہ کرتا ہے جن سے اس کا واسطہ رہا ہو۔انٹرویو کرنے والا باصلاحیت اور مستعد ہونا چاہیے تاکہ انٹرویو دینے والے کو یہ گلہ نہ رہے کہ _ ؎
گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
بلکہ انٹرویو لینے والا اتنا اس فن میں ماہر ہونا چاہیے کہ شخصیت کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے، کماحقہ ہر واقعے اور ہر پہلو پر گفتگو ہو۔یہ مہارت ،صلاحیت اور ماہرانہ پن نثار احمد صدیقی میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ انٹرویو لینے کے رموز سے وہ بخوبی واقف نظر آتے ہیں، جس کا انداز ان کی حال ہی میں آئی کتاب ’’ انطباق‘‘ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ انٹرویوز کا یہ مجموعہ 2022 ء میں شائع ہوا ہے۔تین سو صفحات پر محیط اس کتاب میں کل سولہ ادبی شخصیات سے مکالمہ باندھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں ایک مضمون بعنوان نثار احمد صدیقی : ادبی مصاحبہ کار از ڈاکٹر محسن رضا رضوی ،حرف ترتیب از مرتب اور آخر پر کتاب کے مرتب کا سوانحی خاکہ دیا گیا ہے۔انطباق میں جن سولہ قلمکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں ،ان سب کا تعلق پاکستان سے ہے۔اس مجموعے کی ترتیب میں حروف تہجی کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور جن ادباء و شعراء اور ناقدین سے مکالمہ کیا گیا ہے وہ یوں ہیں: احمد زین الدین ، اسد محمد خان ،ایوب خاور، اے خیام ، حمایت علی شاعر ، حسن منظر ، خالد فیاض ، سلیم آغا قزلباش ، صبا اکرام ، علی حیدر ملک ، غلام حسین ساجد ، مبین مرزا، محمد حمید شاہد ، محمد رضا کاظمی ، مسلم شمیم اور ممتاز احمد خان ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انٹرویو شخصیت کے مطالعے اور اس کی زندگی کو جاننے کا کامیاب ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے شخصیت کے متعدد تاریک گوشوں پر روشنی پڑتی ہے اور مستند جانکاری قارئین تک پہنچ جاتی ہے۔نثار احمد صدیقی نے انطباق میں جن پاکستان کے سولہ شعراء ،ادباء اور ناقدین سے سوالات کئے ہیں ان سے نہ صرف شخصیت کی پیدائش ،پہلی تحریر کی جانکاری ، زندگی کے شب و روز ،ادبی کارناموں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ معاصر ادبی منظر نامے ، لکھنے کے محرکات ، موجودہ ادب کے بارے میں رائے اور ناقدین کی آراء سے اختلاف جیسی اہم معلومات کا خزانہ بھی ہاتھ آتا ہے۔انٹرویو کے اپنے حدود ہیں اور عین ممکن ہے کہ ہر فنکار سے ایک جیسے سوالات کئے جائیں، لیکن نثار احمد صدیقی اس لحاظ سے داد کے مستحق ہیں کہ جب شاعر سے سوالات کرتے ہیں تو ان کی نوعیت الگ ہے، ناقد سے منفرد سوالات کرتے ہیں اور افسانہ نویس کے گرد الگ قسم کے سوالات کا جال بھنتے ہیں لیکن مدعا ایک ہی ہوتا ہے کہ قارئین تک معلومات کے ساتھ ساتھ شخصیت کی سوچ اور زاویہ نگاہ کا عکس بھی پہنچ جائے۔ان تمام انٹرویوز کی خوبی ہے کہ سوالات مختصر ہیں اور جوابات مفصل۔چند سوالات دیکھیں _۔�براہ کرم ذاتی و ادبی زندگی کے کوائف بیان کیجیے؟�پاکستان میں اردو ادب کا منظر نامہ ؟�پاکستان میں پچاس برسوں میں کون سا ناول مقبول رہا اور کیوں ؟�آپ کیوں لکھتے ہیں ؟�موجودہ ادب کے بارے میں آپ کی رائے ؟�تخلیقی عمل کے لیے کیا برے حالات کا ہونا ضروری ہے۔؟�شاعری کو آپ وجدانی شئے سمجھتے ہیں یا اکتسابی ؟یہ اور اس قسم کے سنجیدہ سوالات ان انٹرویوز کا خاصہ ہے اور دیکھا جائے تو ان سوالات کے جوابات دینا آسان بھی نہیں۔
انطباق میں نثار احمد صدیقی نے بعض سوالات ایسے کئے ہیں کہ اگر ان کا جواب ہوش اور جواز کے ساتھ نہ دیا جائے تو بڑے ادبی معرکے وجود میں آسکتے ہیں ،جیسے احمد زین الدین سے سوال کرتے ہیں کہ _ �فاروقی صاحب کی تنقید نگاری کو آپ کیا سمجھتے ہیں۔؟معروف شاعر ایوب خاور سے یہ سوال کہ _�ہندوستانی نقاد کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف شاعری کہا ہے، اس تناظر میں انہیں شعر نافہم یا غزل ناشناس کہہ سکتے ہیں۔؟صبا اکرام صاحب سے یہ سوال کیا ہے کہ _�آپ کے ہم عصر ہندوستانی افسانہ نگار ساجد رشید نے ایک جگہ تحریر کیا ہے:’’شمس الرحمن فاروقی افسانہ نافہم نقاد ہیں‘‘۔ کیا آپ اس جملے سے متفق ہیں اگر نہیں تو کیوں۔؟مبین مرزا سے یہ اس نوعیت کا سوال کیا ہے کہ �ہم ہندوستانی فنکاروں کو پاکستان کے چند فنکار اچھی نظر سے نہیں دیکھتے؟ اس کی کوئی خاص وجہ ؟نثار احمد صدیقی نے ایسے سوالات کرکے نہ صرف ان افسانہ نگاروں اور ناقدین کا نقطہ نگاہ قارئین کے سامنے لانے کی کوشش کی بلکہ ان کے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انطباق ایک مفید کتاب ہے کہ اس کے مطالعے سے ان پاکستانی ادباء و شعراء اور ناقدین کے بارے میں قیمتی معلومات، ان کی حالات زندگی ، ادبی کارنامے ، ان کی دیگر وابستگیاں جاننے کا موقع فراہم ہوتا ہے، جن کے فن سے تو ہندوستان کے قارئین واقف ہیں لیکن ان کے کوائف اور دیگر جہات سے واقفیت نہیں رکھتے۔ان انٹرویوز میں ایسی مفید اور کارآمد باتیں آگئی ہیں جو تحریرات میں عام طور پر رہ جاتی ہیں۔ نثار احمد صدیقی نے ’’حروف ترتیب‘‘ میں بجا طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ _،
’’ادبی مقالے سے ادبی انٹرویوز یا مکالمے ، ادبی نقطہ نظر سے کارگر ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ ہر زبان کے ادب میں انٹرویوز کی اہمیت مقالے سے بلند ہے۔آج کے اسکالرز مقالے سے زیادہ ادبی انٹرویوز سے استفادہ کرتے ہیں ۔‘‘
یہ انٹرویوز اس لائق ہیں کہ ان سے استفادہ کیا جائے ۔ ان انٹرویوز سے وہ ضروری معلومات اخذ کی جا سکتی ہے جو ایک طالب علم کے لیے مفید اور اسکالر کے لیے معاون ثابت ہوگی ۔انطباق کی بدولت قلمکاروں اور قارئین کے درمیان جو تعلق بن گیا ہے، امید ہے کہ وہ آئندہ بھی قائم و دائم رہے گا۔
(رابطہ-8493981240)
[email protected]