نبی مہربان، انسانِ کاملؐ نورِ مجسم

ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ

خلقِ عظیم وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیتِ مبارکہ میں فرمائی ہے:ترجمہ:درگزر کی عادت اپناؤ،نیکی کا حکم دو اور جاہلوں کو منہ نہ لگاؤ۔(سورۃ الاعراف)حدیثِ پاک میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تونبی اکرم ؐ نے حضرت جبرائیل امین ؑسے اس بات کی وضاحت چاہی۔ انہوں نے فرمایا :آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہترین اخلاق عطاکئےگئے ہیں، جو آپؐ سے قطع تعلق کرے ،اسے اپنے ساتھ بلائیں، جو آپؐکو نہ دے، آپؐ اسے عطا کریں، جو آپؐپر ظلم کرے ،اسے آپؐ معاف فرمادیں۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیبؐ پر فضل و کرم اس درجے ہے اور آپؐ کے اخلاق عظیم اعلیٰ پائےکے ہیں کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارہوتی ہے کہ نبی اکرم ؐ نے ا ن مراتب عالیہ کو آخری حد تک پہنچا دیا۔ نبی کریم ؐ ارشاد فرماتے ہیں: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (سنن ابو داؤد)
حضرت حسینؓ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم کیوں نہ ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل اقدس پر اخلاقِ عظیم و اخلاقِ کریمہ کے انوار کی تجلی فرمائی ہے۔ سب سے بہتر اور جامع تفسیر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے بیان فرمائی ہے۔حضرت سعد بن ہشامؒ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا، اے ام المومنینؓ! مجھے نبی اکرمؐ کے خلق کے بارے میں بتائیے۔ آپ ؓنے فرمایا: تم قرآن پاک نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا ،میں پڑھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: نبی اکرمؐ کا خلق قرآن ہے۔(صحیح مسلم) حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے دس برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی اور اس دوران آپؐ نے کبھی بھی مجھے اُف تک نہ کہا اورنہ کبھی یہ کہا کہ کہ تم نے فلاں کام کیو ں نہیں کیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں بہترین خلق کے مالک تھے۔(بخاری ومسلم)زید بن حارثہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ،آپ ؐزید کے ننھے بیٹے اسامہ سے بہت پیار کرتے ۔(بخاری ومسلم)حضوراقدس ؐ ہر غزوے کے موقع پر کفار کے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا کرتے اور فرماتے تھے کہ ہرجان اللہ کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔ رسول اکرم ؐ کی عادت میں شامل تھا کہ کوئی شخص بیمار ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے اور کوئی شخص فوت ہوجاتا تو اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے اور پسماندگان سے تعزیت کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبدللہ بن ثابت ؓ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ انہیں عالم نزع میں دیکھ کرفرمایا افسوس ابوالربیع تمہارے معاملے میں ہم اب بے بس ہیں۔ یہ سن کر گھر کی عورتیں چیخنے چلانے لگیں، صحابہ ؓنے انہیں رونے سے منع کرنا چاہا، توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اب رونے دو،البتہ مرنے کے بعد نوحہ نہیں کرنا چاہیے۔ وفات کے بعد عبداللہ بن ثابت کی بیٹی نے عرض کیا کہ میرے ابا شہادت کا درجہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے اور انہوں نے اس نیت سے جہاد کا سامان بھی تیار کرلیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اپنی نیت کا ثواب مل گیا ۔(ابوداؤد)