نبی آخر الزماںحضرت محمد مُصطفےٰ ؐ کی تشریف آوری رحمتِ عالَم

مولانا نعمان نعیم

ماہِ ربیع الاوّل اِسلامی کیلنڈر کاتیسرا اور مبارک مہینہ ہے، اِس ماہِ مبارک میں رات کے اندھیرے کے اختتام پر دن کا اُجالا ہونے کے سا تھ نبی آخرالزماں‘ حبیب ِکبریا‘ امام
الانبیاء ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ سیّد المرسلین، حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ولادت باسعادت ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور آپؐ کی بعثت تاریخِ عالم کا عظیم واقعہ اور ایک بے مثال انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
یہ انقلاب صرف مذہبی ہی نہیں تھا علمی اور سیاسی بھی تھا،فکری اور نظری بھی،معاشی اور معاشرتی بھی تھا، مادی بھی تھا اور روحانی بھی۔غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا باقی نہیں بچا،جس میں آمنہ کے لالؐ نے انقلاب نہ برپا کر دیا ہو، یہ انقلاب تاحال مسلسل جاری ہے اور تاقیام قیامت جاری رہے گا۔بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور نبوت و رسالت امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور (اے رسول ؐ!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کربھیجا ہے(سورۃ الانبیاء،آیت: ۱۰۷)
اس آیت میںاللہ تبارک وتعالیٰ نے اہتمام کے ساتھ دنیا جہاں والوں پر اپنی خصوصی مہربانی کا تذکر فرمایا ہے۔ وہ اس طور پر کہ پروردگار عالم نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوتمام جہاں والوں کے لئے رسول رحمت بنا کر بھیجا۔آیت میں مذکور لفظ’’عالمین ‘‘، عالَم کی جمع ہے ،جس میں ساری مخلوقات بشمول انسان، فرشتے، جنات، حیوانات، نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سب کے لئے رحمت اس طور پر ہیں کہ دنیا میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ذکر وتسبیح اور اس کی عبادت وبندگی آپؐکے دم سے قائم اور آپ کی تعلیمات کی برکت سے جاری و ساری ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب زمین پر کوئی بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں رہے گا تو قیامت آ جائے گی۔تفسیر ابن کثیر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا گیا ہے کہ’’میںاللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں‘‘۔باقی انسانوں کے لئے رحمت ہونا اس طور پر ہے کہ آپ نے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھایا،گمراہی سے بچایا،کفر وشرک کے اندھیروں سے ،ایمان و توحید کے اجالے کی طرف رہنمائی فرمائی ۔۳۶۰بتوں کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکنے اوراپنی حاجتوں کے لئے انہیں پکارنے کے بجائے صرف ایک خالق و مالک کی بندگی کی طرف بلایا۔
لوگوں کو جہنم کی آگ میں جانے سے انہیں پکڑ پکڑ کر روکا۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، تو پروانے اور پتنگے آ کر اس میں گرنے لگے،میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتا ہوں اور تم اس میں چھوٹ چھوٹ کر گرتے ہو‘‘ یعنی میرے منع کرنے کے باوجود تم اللہ کی نافرمانی ،فسق و فجور کا ارتکاب کر کے جہنم کی آگ میں گرنے لگتے ہواور آپ کی رحمت انسانوں میں مؤمن و کافر دونوں کے لئے عام ہے۔
صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے التماس کی گئی کہ اے اللہ کے رسول ؐ ! مشرکوں کے لئے بد دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں لوگوں کے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں، بلکہ مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،میں نبی تھا اور آدمؑ ابھی جسد اور روح میں تھے ۔یعنی ان کی روح ان کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی، اُس وقت بھی میں نبی تھا۔ حضور ؐ مبدأ کائنات ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخزن کائنات ہیں۔منشاء کائنات اور مقصود کائنات ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے۔اے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نہ ہوتا تومیں دنیا کو نہ بناتا۔ایک حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا: اے میرے نبی ،اگر آپؐکو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا میں آسمانو ں کوبھی پیدانہ کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اول ہونے کا مضمون قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:اے حبیبؐ ہم نے آپؐ کو نہیں بھیجا، مگر سارے عالموں کے لیے رحمت بناکر۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی کہلوایا گیا کہ ’’تم فرمائو اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رحمت پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘۔
اللہ عزّوجل کی عظیم ترین رحمت، فضل اور نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، کیوںکہ آپ کو مبعوث فرما کر خالق کائنات نے خود مومنین پر اس احسان عظیم کو جتایا ہے۔ سورۂ والضحیٰ میں ہے ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:بے شک، رسول کریم ؐکی پیروی بہتر ہے،اس کے لیے جو اللہ اورآخرت پریقین رکھتاہواور اللہ کوبہت یاد کرے، اس میں مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ اگر دین و دنیا کی کامیابی چاہتے ہوتو رسول اللہ ؐ کی زندگی کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ بنالواور ان کی پیروی کرو، ہرمسلمان کو حکم دیاگیا ہے ۔مسلمانوں میں بعض بادشاہ ہوں گے، بعض حاکم، بعض مال دار، بعض غریب، بعض گھر والے، بعض تارک الدنیا اب ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی حضور علیہ السلام کی زندگی کے تابع ہو۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ربیع الاول مقدس ماہ مبارک ہے، جس میںسیّد المرسلین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے۔ ان میں ایک محسنِ انسانیت،خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمدؐ کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہے۔ آپؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔
بعثتِ محمدیؐ کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے جو خالق کائنات نے اپنی مخلوقات پر فرمائی یعنی ہر نبی سے یہ عہد لیا گیا کہ اس کی زندگی میں باوجود ان کی نبوت کی موجود گی کے اگر آنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئیں تو پھر کسی نبی کی نبوت نہیں چل سکتی، بلکہ اس نبی کو بھی سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ان کی تائید و نصرت کرنا ہو گی۔جب انبیائے کرامؑ کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر ان کی امتوں کا کیا وصف ہونا چاہیے؟
ظاہر ہے کہ ان کے لیے تو بدرجۂ اولیٰ لازم ہے کہ وہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پر ایمان لائیں اور انبیاءؑ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاس داری کرتے ہوئے منشائے ربّانی کے مطابق آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرماںبرداری اختیار کریں،چوںکہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں۔ قیامت تک کے لیے دستورحیات، صرف اور صرف شریعتِ مصطفویؐ قرار پائی ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’(اے محمدؐ) کہہ دیجیے کہ لوگو، میں تم سب (یعنی پوری انسانیت) کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا اور وہی موت سے ہمکنار کرتا ہے،تو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو اللہ اور اس کے تمام کلام (یعنی تمام سابقہ کتب و صحائف) پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لائو اور ان کی پیروی کرو،تاکہ تم ہدایت پاجائو۔(سورۃ الا عراف)
یہ اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی خاص خطے، قوم یا زبان والوں کا نبی بنا کر نہیں بھیجا،بلکہ آپؐ پوری انسانیت کے لیے پیغمبر رشد و ہدایت کے مقام عظمت و رفعت پر فائز کر کے مبعوث فرمائے گئے۔ نبی کریم ؐ کی شفقت، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل، برداشت، بردباری، حلیمی بھری خیرخواہانہ جدوجہد جو صعوبتوں اور مشکلات کے درمیان رہی، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان جن کی تاریخ مؤرخین نے انتہائی بھیانک لکھی تھی، اُن کی تاریخ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی تابناک بن گئی۔
نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایک عظیم انقلاب آیا۔ جو لوگ دوسروں کے لہو کے پیاسے تھے، وہ آج دوسروں کے لیے اپنا خون بہانے پر تیار ہوگئے، جو اپنا وزن طاقتور کے پلڑے میں ڈال دیا کرتے تھے، آج اُن کا وزن پِسے ہوئے لوگوں کے حق میں استعمال ہونے لگا، جو دوسروں کے دانے چھین لیا کرتے تھے،آج خود ضرورت ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دینے لگے۔ یوں پوری دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح و کامیابی کا عظیم اور تاریخ ساز کارنامہ ہے۔