نابالغ رشتے ۔ ہنگامےاورتباہی کے گہوارے لمحۂ فکریہ

سید مصطفیٰ احمد ۔ زینہ کوٹ، سرینگر

جب ہم چھوٹے تھے، تو teenage کے جنون میں کچھ فیصدی لڑکے اور لڑکیاں نابالغ رشتوں کے نازک دھاگے میں بندھ جاتے تھے۔ ایک کم سنی اور دوسرا ناتجرکار وہ کچھ وقت کے لئے اس رشتے سے جڑ جاتے تھے۔ ڈر بھی بہت تھا۔ موبائل فونس بھی نہیں تھے۔ Intermediaries سے کام چلانا پڑتا تھا۔ خط ایک پیارا ذریعہ تھا۔ بڑوں سے چھپ کر ملا کرتے تھے۔ پکڑ جانے کا ڈر دامن گیر ہوتا تھا۔ آج کے اس کے برعکس ہے۔ اپنے کمرے میں جس سے بھی بات کرنی ہو، کر سکتے ہیں۔ جائز اور ناجائز دونوں قسم کی حاجتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ teenage میں opposite gender کی کشش زیادہ ہوتی ہے۔ اس عمر میں love اور affection کے ملے جلے جذبات کا ابھلنا عام سی بات ہے ۔ ہاں! اس strife and strain کو ایک معقول راستہ دیا جاسکتا ہے، اس کو channelize کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کو ایک راہ دکھانے کے بجائے یہ رشتے اب وبال جان بن گئے ہیں۔ آئے روز ان رشتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آتا ہے، جس کی وجہ سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یا تو لڑکے کی طرف سے کوئی مسئلہ ہوجاتا ہے یا پھر لڑکی والوں کی طرف سے کوئی مسئلہ ہونا طے ہے۔ چاقوں سے حملہ، تیزاب پھینکا، سر راہ ایک دوسرے کو مارنا، سوشل میڈیا پر جذباتی torture کرنا، black mail, کرنا،دھمکیاں دینا،وغیرہ ایسی نازیبا حرکتیں ہیں جو آج کے نابالغ رشتوں کی خصوصیات میں شامل ہیں۔ان نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کی وجہ سے گھر اور سماج کی social basis ختم ہونے کی نہج پر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج میں ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ جس تیزی اور جس شدت کے ساتھ ہم مختلف اقسام کے جرائم کو وقوع پذیر ہو رہے ہیں، خاص کر نابالغ بچوں کا حرام رشتوں میں بندھنا، وہ قابل تشویش ہیں۔ اگر یہ کم سن بچے اور بچیاں اپنے قیمتی سال اس فضول کام میں ضائع کریں گے تو آگے چل کر ان کا مستقبل تاریک ہوگا۔ وہ خود کے لئے اور گھر والوں کے لئے بھی ایک بوجھ ہونگے۔

 

 

موجودہ حالات بہت سارے وجوہات کا نتیجہ ہیں۔ اپنی تہذیب کو پیٹ پیچھے دھکیل دینا اور اوروں کی تہذیب کو من و عن تسلیم کرنے سے یہی ہوتا ہے۔ ہر تہذیب اپنے اندر مثبت اور منفی عناصر رکھتی ہیں۔ ایک ملک کے لئے مثبت پہلوؤں کو گلے لگانا ہی کارگر ہے۔ منفی پہلوؤں سے دامن چھڑانا ضروری ہے۔ ہم اندھوں کو کون سمجھائے۔ ایک زمانے میں مسلمانوں کا سکہ چلتا تھا Professor K.Hitti and Robert Briffault اس کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ مغربی تہذیب نے ہمارے finer values کو بروئے کار لاکر اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ اس کے برعکس ہم نے مغرب کی ہر چیز کو بنا سوچے سمجھے مان ہی نہیں لیا بلکہ مقدس سمجھ کر سر پر بٹھا لیا۔ اب جو چیز اس تہذیب میں موجود ہے،ہم اس کے پجاری بن گئے۔ ہمارے نابالغ بچوں اور بچیوں نے اس کا سب سے زیادہ اثر لیا۔ ایک ہوتا ہے sex کو glorify کرنا ،دوسرا ہوتا ہے sex کو sublimate کرنا۔ ہماری تہذیب بعد الذکر کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک بچہ یا بچی کو ایک دن اچانک اپنے اجسام مختلف لگتے ہیں۔ اس دن سے ان میں curiosity پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس جاننے کی کوشش کو اگر صحیح ڈگر فراہم کئی جائے، تب سب کچھ ٹھیک ہے۔ اگر اس کے برعکس ہو، تو یہی جاننے کی keenness خرابی کا باعث ہوسکتی ہے۔ اس کی مثالیں ہمارے چار سو ہیں۔ اس کے علاوہ ماں باپ کی لاپرواہی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ والدین اپنے بچوں اور بچیوں کی جائز اور ناجائز خواہشات کو ماں لیتے ہیں اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ والدین کو ایسا ماحول ترتیب دینا چاہیے تھا، جہاں بچوں اور بچیوں کی صحیح رہنمائی ہوتی۔ ہمارے یہاں زندگی جینے کا ڈھنگ بالکل غلط ہے۔ ماں باپ بچوں اور بچیوں کو اس لئے پالتے ہیں کہ ان کا مستقبل سنور جائے اور والدین کے لئے آرام مہیا کرے۔ مگر پھر یہی settled children پوری زندگی کو unsettle کر دیتے ہیں۔ آج پاگل حرکتوں سے بھی سوشل میڈیا پر پیسے کمائے جاتے ہیں۔ وہ Mercedez اور Buggati میں گھومتے ہیں۔ ان کے لاکھوں میں followers ہیں۔ مگر وہ تربیت سے دور ہے۔ وہ دن میں دس پندرہ رشتے جوڑتے اور توڑتے ہیں۔ ہمارا رویہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس سوچ نے ہمیں جانور بنا دیا ہے کہ بچوں کو صرف پیسے کمانے ہیں۔ اس مہم میں اگر کچھ بھی کرنا پڑے، سب جائز ہے۔ اگر ماں باپ بچے کو یہ نصیحت کرے کہ مجھے ڈاکٹر اور پیسے کما کے دو، باقی سب کچھ جائز ہے،تو ہوگیا فیصلہ اس سماج کا۔ جب تک نہ والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو یہ بات واضح کرنے کہ زندگی کے کس موڈ پر کیا کرنا ہے، تب تک کسے بھی تبدیلی کی توقع کرنا فضول ہے۔ والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ کس طرح compromise اور negotiate کیا جاتا ہے۔ اپنی رائی تھوپنے سے صفر نتائج سامنے آئیں گے۔ اس کے علاوہ بچیوں اور بچوں کے دوستوں پر خاص توجہ رکھی جائے۔ گھر میں آپ کتنا بھی اچھا ماحول قائم کرے، دوستوں کی بُری عادتیں بگاڑنے کے لئے کافی ہیں ۔ مزید برآں نصیحت برائے تعمیر ہونہ کہ بگاڑ۔ اولاد کو الگ سے بھی سمجھایا جاسکتا ہے اور بیچ سڑک پر بھی۔ نصائح دونوں مواقع پر ہوسکتی ہیں مگر اثر مختلف ہونگے۔ الگ سے سمجھانے کا مطلب ہے تعمیر مگر بیچ سڑک پر ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہے تخریب۔

 

 

حالات اور خراب ہونے سے پہلے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے بچے اور بچیاں نابالغ رشتوں سے دور رہے۔ ان کو کسی مقصد کے لئے پہلے سے ہی تیار کیا جائے۔ ان کے ساتھ انسانوں کی ذہنیت اور عمر کے لحاظ سے بات کئی جائے۔ ان سے teenage کے مسائل اور ان کے تدارک کے بارے میں جانکاری فراہم کی جائے۔ Legal marriage اور illegal relationships کے بارے میں گھر سے لے کر اسکول تک روشناس کرایا جائے۔ شادی کو ایک مقدس ادارہ سمجھ کر اس کے مثبت پہلوؤں پر سیمینار منعقد کئےجانے چاہیے۔ قانون کو بھی اپنی گرفت سخت کرنی چاہیے۔ کوئی بھی لاپرواہی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک سازگار ماحول میں ہم کوئی بھی قلعہ فتح کرسکتے ہیں اور وقت کی ضرورت ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کی حفاظت کرے اور ان کو teenage کے سخت مراحل میں ان کے ہمنوا بنےنہ کہ دشمن۔
[email protected]