نئے عالمی نظام کے لئے نئے منصوبے

 

اسد مرزا

 

’’گزشتہ ایک ہفتے کے دوران  دو عالمی طاقتوں کی طرف سے دو نئے منصوبے سامنے آئے ہیں، جن کا مقصد دنیا کو کنٹرول کرنا یا موجودہ عالمی نظام کو دوبارہ ترتیب دینا ہے۔‘‘

…………………………………………………….

امریکی صدر جو بائیڈن نے 26 جون کو اور چینی صدر شی جن پنگ نے 23 جون کو BRICS اور G7 سربراہی اجلاس میں بالترتیب دو نئے عالمی منصوبوں  کا اعلان کیا ہے۔جس کے ذریعے امریکی اور چین ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کے تحت لانا چاہتے ہیں۔

چین بمقابلہ امریکہ :۔

گزشتہ ہفتے 22 جون کو 25ویں سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم اور اگلے دن 23 جون کو بیجنگ میں برکس ممالک کے سربراہی اجلاس میں اپنے خطاب میں چینی صدر شی جن پنگ نے وسیع تر بین الاقوامی ترقی کے لیے ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ جس کے ذریعے عالمی سطح پر ترقیاتی شراکت داری کے وسائل، پلیٹ فارمز اور نیٹ ورکس کو جمع کرکے ترقیاتی فرق کو ختم کیا جاسکے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بین الاقوامی برادری زیادہ مساوی، پائیدار اور محفوظ ترقی کے حصول کے لیے کوشاں ہے، شی نے کہا کہ نئے مواقع سے فائدہ اٹھانا، چیلنجوں کا سامنا کرنا ،نئے ‘عالمی ترقیاتی اقدام’ (جی ڈی آئی-GDI) کے نفاذ کا اہم ترین حصہ ہے۔جس کے ذریعے امن اور خوشحالی کا مشترکہ مستقبل قائم کیا جاسکے۔

دریں اثناء جرمنی کے باویرین الپس پہاڑوں میں Schloss Elmau کے مقام پر G7 کے حالیہ سربراہی اجلاس میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے 26 جون کو غریب اور ترقی پذیر ممالک کو بنیادی ڈھانچے کے فنڈز فراہم کرنے کے لیے اپنے نئے منصوبے  کا اعلان کیا، جس کا نام Global Investment and Infrastructure Partnership – GIIP ہے۔ اس اقدام کا واضح مقصد چینی بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (BRI) کا متبادل بننا ہے جسے بیجنگ نے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے استعمال کیا ہے۔شراکت داری کے اس نئے منصوبے کے تحت 2027 تک $600bn نجی اور عوامی فنڈز جمع کرنا ہے۔ اس فنڈ میں امریکہ کا حصہ $200bn  رہے گا۔

نئے  اقدامات کی بھرمار  :۔

دراصل، گزشتہ سال کارن وال،برطانیہ میں G7 کانفرنس کے دوران جوئے بائیڈن نے اسی طرح کے منصوبے کی  نقاب کشائی کی تھی۔ اور جسے  ‘Build Back Better World’ کا نام دیا گیا تھا۔تاہم،  اب تک، گزشتہ سال سے ‘Build Back Better World’ کے بارے میں بہت کم سنا گیا ہے، جب کہ جنوری میں یورپی یونین نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ‘گلوبل گیٹ وے’ کے نام سے اپنا بنیادی ڈھانچہ فنڈ شروع کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد € 300 بلین ($ 53 بلین ڈالر) جمع کرنا ہے اور  2027 تک مختلف ترقی پذیر ممالک میں اس کے ذریعہ سرمایہ کاری کرنا ہے۔

برطانیہ نے، یورپی یونین سے الگ، ‘کلین گرین انیشیٹو’ کے نام سے اپنا انفراسٹرکچر پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ جاپان علاقائی رابطوں کے لیے اسی مدت میں 65 بلین ڈالر اکٹھا کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، حالانکہ اس فنڈ/منصوبے کا نام ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔

یہ تمام مختلف فنڈز،جن کا اصل مقصد چین کو اقتصادی طور پر گھیرنا ہے، وہ عمومی طور پرعام آدمی اور سیاست دان دونوں کے لیے ابہام پیدا کررہے ہیں۔ شاید اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے، جرمن چانسلر نے 26 جون کو اپنی تقریر میں اس الجھن کو واضح طور پر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر G7 ممالک ایک مشترکہ شراکت داری کے ذریعے  اپنے ان نئے منصوبوںکو آگے لے کر چلیں تو یہ زیادہ دور رس اور فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ بائیڈن، یورپی کمیشن کی صدر، ارسولا وان ڈیر لیین، اور برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور غالباً اس پر آپس میں تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔

چین نے اس نئے منصوبے کو ”صفر رقم گیم اپروچ” پر مبنی اقدام یعنی کہ غیر فائدے کا سودا قرار دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے متعلقہ اقدام مشترکہ ترقی اور جیت کے تعاون کی تمام ممالک کی خواہش کو نظر انداز کرتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔

G-7: اگلے اقدامات  :۔

اگرچہ G7 سربراہی اجلاس کا واضح مقصد یوکرین میں جنگ اور توانائی کی منڈیوں کو مستحکم کرنے اور روسی گیس اور تیل پر انحصار کو کم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا، لیکن یوکرین کی اخلاقی حمایت کے علاوہ یہ اعلانات عملی طور پر بہت کم سامنے آئے ہیں ۔ جی 7 کے رہنماؤں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو سنا اور انھیں مزید ہتھیاردینے کا وعدہ کیا۔جرمنی کی جانب سے مہیا کردہ ہتھیاروں کی پہلی کھیپ اسی ماہ یوکرین پہنچی ہے۔

دریں اثنا،G7 ممالک نے 26 جون سے روسی سونے کی درآمدات پر پابندی عائد کر نے کا اعلان کیا  ہے تاکہ ماسکو پر پابندیوں کے دباؤ کو سخت کیا جا سکے اور یوکرین پر حملے کی مالی امداد کے اس کے ذرائع کو ختم کر نے کو یقینی بنایا جاسکے۔

تاہم، دھاتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا سونے کی بین الاقوامی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،عالمی سطح پرچین اور بھارت سونے کی بڑی منڈیاں ہیں اور اپنے باشندوں کی ذہنیت کے تئیں یہ کسی بھی قیمت پر سونا خریدتے رہیں گے۔بالکل اسی طرح سے جس طرح سے اب تک روسی خام تیل خریدتے آئے ہیں۔

 

مثبت ہندوستانی سفارتکاری   :۔

ان دو اعلیٰ سطحی سربراہی اجلاسوں میں ایک مشترکہ عنصر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی تھی۔ یہ اس اہمیت کو واضح کرتا ہے، جسے چین اور امریکہ دونوں اس وقت ہندوستان کو دے رہے  ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اس کی آزادانہ اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی ہے،جیسا کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اس ماہ کے شروع میں GlobSec 2022 Bratislava فورم میں ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی تقریر کی ستائش کی ہے۔ جس میں انھوں نے مغربی ممالک کو آئینہ دکھایا تھا۔ اور کہا تھا کہ نئی دہلی اور بیجنگ اپنے دوطرفہ تعلقات کو خود سنبھال سکتے ہیں، اور دنیا کو اپنی یورو سینٹرک ذہنیت سے باہر آنے کی ضرورتہے۔ ہندوستان نے اب تک نہ تو چینی صدر کے جی پی آئی کی تائید کی ہے اور نہ ہی بائیڈن کے نئے اقدام پر اب تک کوئی تبصرہ کیا ہے۔ یہ ایک مکمل طور پر آزاد بین الاقوامی خارجہ اور تجارتی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کی جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی اہمیت کی وجہ سے، اور اس کے غیر متزلزل موقف نے اسے دونوں بلاکوں کے لیے پسند یدہ امید وار بنادیا ہے۔ اوراگر ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے بحرالکاہل کے خطے میں اپنی غیر متزلزل پالیسی پر قائم رہتا ہے تو مستقبل میں یہ اس کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)

www.asad-mirza.blogspot.com