نئی بستی ٹھاٹھری ڈوڈہ میں زمین دھنسنے کا سلسلہ جاری ۔3ڈھانچے منہدم،21ڈھانچے غیر محفوظ قرار، 300نفوس عارضی پناہ گاہوں میں منتقل

 اشتیاق ملک

ڈوڈہ //ڈوڈہ ضلع کے قصبہ ٹھاٹھری میں بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ کے متصل واقع نئی بستی میں زمین دھنسنے کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں 21 کے قریب ڈھانچے اس کی زد میں آئے ہیں جس میں 19 رہائشی مکان، ایک مسجدا ور ایک مدرسہ کی عمارت بھی شامل ہے جبکہ مدرسہ کی80طالبات ،مکان مالکان، کرایہ داروں سمیت300نفوس کومحفوظ مقام پر منتقل کیاگیا ہے اور وجوہات جاننے کیلئے جیولوجیکل سروے آف انڈیا کی ٹیم، این ایچ اے آئی، کشتواڑ سے ماہر ارضیات جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں۔

 

اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں کی شدید بارشوں سے قصبہ ٹھاٹھری میں واقع نئی بستی میں کچھ رہائشی مکانات میں دراڑیں پڑ گئیں۔ مقامی لوگوں نے انتظامیہ کو مطلع کیا جس کے بعد ڈپٹی کمشنر ڈوڈہ وشیش پال مہاجن نے ایس ایس پی عبدالقیوم، ایس ڈی ایم ٹھاٹھری اطہر آمین زرگر و دیگر ماہرین کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دورہ کرکے ابتدائی طور پر 5 رہائشی مکانات و ایک محلہ مسجد کو غیر محفوظ قرار دے کر متاثرہ کنبوں کی باز آبادکاری کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ہدایت دی لیکن یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور کچھ مکانات کی دیواریں گر گئیں اور مزید رہائشی ڈھانچوں میں بڑے بڑے شگاف پڑ گئے۔مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ اثرو رسوخ رکھنے والے لوگوں نے قومی شاہراہ کے متصل غیر قانونی کٹائی کی، جس کے بعد بارشوں میں زمین دھنسنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اس معاملے میں ایک مقامی شخص کے خلاف تھانہ پولیس ٹھاٹھری میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ ادھرجمعہ کوسب ڈویژنل مجسٹریٹ ٹھاٹھری اطہر امین زرگر نے ڈپٹی کمشنر ڈوڈہ کے نام تفصیلی رپورٹ روانہ کی جس میں انہوں نے 19 رہائشی مکانات، ایک محلہ مسجد اورایک مدرسہ کی عمارت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے۔

 

ایس ڈی ایم ٹھاٹھری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ 21 کے قریب ڈھانچے اس کی زد میں آئے ہیں جس میں 19 رہائشی مکان اور ایک مسجد و ایک مدرسہ کی عمارت بھی شامل ہے۔ایس ڈی ایم نے کہا کہ ان مکانات کو خالی کروایا گیا ہے اور متاثرہ کنبے عارضی طور پر محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے انتظامیہ ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور اس کے لئے باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر ڈوڈہ کی قیادت میں ایک منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ اطہر امین زرگرنے مزید کہا’’یہ علاقہ (نئی بستی) شاید پرانی سلائیڈ کی وجہ سے دھنس رہاہے۔ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے اور ان 21 ڈھانچوں کو خالی کرا لیا گیا ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’تین دن پہلے چھ مکانوں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں اور کل یہ تعداد دس تک پہنچ گئی تھی اور آج متاثرہ ڈھانچوںکی تعداد 21 ہو گئی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا اور تصدیق کی کہ 19 میں سے 3 مکانات گر چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنر ڈوڈی وشیش پال مہاجن نے اس ضمن میں کشمیر عظمیٰ کو فون پر بتایا’’19 مکانات ایک مسجد اور ایک مدرسہ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔ہم نے احتیاطی تدابیر کے طور پر دراڑیں پڑنے کے بعد غیر محفوظ مکانوںسے مکینوںکو نکال لیا ہے۔ انہیں گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ٹھاٹھری کے کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جب کہ کچھ خاندان اپنے رشتہ داروں اور گاؤں میں منتقل ہو گئے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا’’ڈویژنل کمشنر جموں رمیش کمار نے جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) کی ایک ٹیم بھیجی ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ صحیح وجہ جاننے کے لیے اپنا کام شروع کر دیں گے۔ وہ ہمیں گھروں میں دھنسنے / دراڑیں پڑنے کی صحیح وجہ بتائیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ محکمہ تعمیرات عامہ کی انجینئرنگ ونگ بھی مٹی کی جانچ کر رہی ہے جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا کی ٹیم اور یہاں تک کہ کشتواڑ کے ماہر ارضیات سے بھی دراڑیں پڑنے کی وجہ معلوم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔مقامی رہائشیوں کا کہنا تھا کہ دراڑیں چوڑی ہو رہی ہیں اور ان سے رہائشی ڈھانچے اور حفاظتی دیواروں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے جس سے مکانات رہائش کیلئے مکمل طور پر غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔مقامی رہائشیوں کے مطابق یہ دراڑیں پہلی بار گزشتہ سال دسمبر کے آخری ہفتے میں ایک گھر میں نظر آئی تھیں۔ دھیرے دھیرے اسی محلے یعنی نئی بستی کے دیگر ملحقہ مکانوں میں بھی دراڑیں پڑ گئیں جو کہ 30 سال قبل اس وقت قائم ہوئی تھی جب وادی چناب میں ملی ٹینسی عروج پر تھی۔ دور افتادہ علاقوں جیسے بونجوہ، سروڑ، کہارا، بھلیسہ اور وادی چناب کے دیگر علاقوں بالخصوص ڈوڈہ ضلع کے لوگ ٹھاٹھری ٹاؤن کی طرف ہجرت کر کے نئی بستی میں آباد ہوئے۔نئی بستی کے ایک مقامی رہائشی سجاد حسین خان نے کہا ’’ہمیں 90 کی دہائی میں ملی ٹینسی کی وجہ سے اپنی جانوں کا خوف تھا۔ اس لئے ہم نے اپنے گھر چھوڑ دیے اور ہجرت کی‘‘۔خان نے کہا کہ ہم بھی اسی محلے میں رہتے ہیں، جن گھروں میں دراڑیں پڑی ہیں وہ ہمارے گھر سے بمشکل 20 فٹ کے فاصلے پر ہیںلیکن ہم فی الحال محفوظ ہیں۔ نئی بستی میں تقریباً 60 سے 70 گھر ہیںجن میں سے اکثریت 90 کی دہائی میں ملی ٹینسی سے متاثر ہونے والے مہاجرین ہیں۔ ایک اور مقامی شہری نے دیر شام کشمیر عظمیٰ کو فون پر بتایا کہ طارق حسین بٹ نامی شہری کا گھر شام کو گر گیا ہے۔جامع مسجد کمیٹی ٹھاٹھری کے صدرعبدالمجید بٹ نے کہا’’متاثرہ خاندانوں کو متبادل محفوظ جگہ پر آباد کیا جانا چاہئے۔ گزشتہ رات، دراڑیں چوڑی ہو گئی ہیں اور ایک سڑک میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں‘‘۔