میں ہی کیوں ؟ برتائوکےآئینہ میں اپنا عکس بھی دیکھ لیں

Silhouette of a man in a business suit giving a shrug with a question mark

قمر النساء

الله تعـالی کا بے شمار حمدوثنا ہے کہ جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر یہ شعور دیا کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کر سکے۔دنیا میں انسان کے بہت رشتے ہوتے ہیں، کبھی کبھار وہ رشتوں کو بخوبی نبھاتا ہے تو کبھی کہیںکوتاہیوں کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔
ایک انسان جوبہت سارے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے ،اُس کی پوری کوشش ہوتی ہےکہ ہر رشتے کو نبھائے ۔ماں باپ،بیٹا بیٹی ،شوہر بیوی ،بھائی بہن ،دوست ورشتہ دار وغیرہ سب کے سب ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق اور جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
یہ قدرت کا نظام ہے کہ ہرایک انسان کی زندگی کے ساتھ بہت سارے لوگ بھی منسلک رکھے ہیںاور اس طرح ہم سبھی فطرتاًکسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔زندگی میںبہت سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔کوئی آپ کے لئے پسندیدہ بن جاتا ہے اور کسی کے لئے آپ پسندیدہ بن جاتے ہیں۔کوئی آپ کو پسند نہیں آتا اور کسی کو آپ پسند نہیں آتے۔اسی طرح کسی کے ساتھ آپ کا رشتہ مضبوط رہتا ہے اور کسی کے ساتھ نہیں رہتا۔کوئی آپ بات مانتا ہے اور کوئی نہیں مانتا۔کوئی آپ کو کچھ سکھاتا رہتا ہے اور کسی کو آپ کچھ سکھاتے رہتے ہیں۔اسی طرح کوئی آپکے ساتھ محبت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتا ہے اور کسی کے ساتھ آ پ ہمدردی اور محبت سے پیش آتے ہیںگویا اس طرح زندگی کے سفرکا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔البتہ انداز اپنا اپنا ہوتا ہے اور خیال اپنا اپنا۔کچھ لوگ کا رویہ آپ کے ساتھ ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے اور کچھ کے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔بہر حال ہر شخص کا مزاج الگ الگ ہوتا ہے۔کوئی انسان ہر ایک کے مزاج میں ڈھل کر انکو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہےمگر کوئی ایسا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ نتیجتاً ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہی انسان رشتے نبھانے کے چکر میں تنگ آجاتا ہے اور پھر ان رشتوں سے کنارہ کشی کر لیتا ہے۔گویا اب وہ ان رشتوں کو نبھانے کی ذمہ داریوں سے آزاد حاصل کرنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اپنے مزاج اور اپنی پسند کے مطابِق زندگی گزار سکے۔یعنی جو رشتے اسکو خوشی و مسرت فراہم کرتے تھے،وہی رشتے اُس کے لئے رنج و غم کا باعث بنتے ہیں۔کیا آپنے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہےکہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کی کیا وجہ ہے کہ بالآخرانسان کے لئے رشتے نبھانا ,رشتوں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ منسلک رہنا ، قید خانے میں بند رہنے کے مانند ہوجاتا ہے ؟
جب اللہ تعـالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو سبھی فرشتوں (ابلیس سمیت)یہ حکم دیا کہ آدم عليه الســـــلام کا سجدہ کرو ۔بطورِ سلام سب نے سجدہ کیا سواے ابلیس کے۔جانتے ہیں کیوں!کیونکہ اسمیں بھی اَنّاحاوی ہوئی۔ ابلیس کو لگا کہ میں تو بہترین ہوں،آگ سے بنا ہوا ہوں، بھلااس مٹی سے بنے ہوئے انسان کو میں سجدہ کیوں کروں !وہ اپنی اسی اَنّا کی وجہ سے ربّ کی رحمت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہوگیا۔
رشتہ میاں بیوی کا ہو یا پھر ماں بیٹی کا۔ساس بہو کا ہو یا پھر باپ بیٹے کا،دوستوں کا ہو یا رشتہ داروں کا۔بہر حال کسی نہ کسی صورت میں جب بھی ان رشتوں میں کسی قسم کی دراڈ پڑتی ہے، بگاڑ یا دوری پیدا ہوجاتی ہے یا فسادہوجاتا ہےتو اُسی وقت یہ تمام رشتے کمزور پڑجاتے ہیں۔ کیونکہ رشتے کچے داگے کی طرح ہوتےہیںجو بعض اوقات ہلکی سی کوتاہی سے بھی برداشت نہیں کرپاتےاورٹوٹ جاتے ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ معمولی سی کسی غلط فہمی یا کسی بے تُکی بات پر قریبی رشتوں میں دراڈ پڑجانے سے رشتے پھیکے پڑنے شروع ہوجاتے ہیں اور کسی دن ایک تیز ہوا کے جھونکےسے ایسے بکھر جاتے ہیںکہ جن کو دوبارہ سنورنے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہتی ، تب انسان کو احساس ہوجاتا ہے کہ مجھے اپنی اَنّا،ہٹ دھرمی ،یا ضد نےکس قدر نیچے گرا دیا ہےاور اللہ کے حضور میںگناہ گار بنایا ہے۔اس لئے بہتر یہی ہے کسی بھی غلط فہمی میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے جو زندگی بھر کے لئے شرمندگی کا باعث بنےبلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لئے معافی مانگنے میں پہل کرنی چاہیے تاکہ رشتوں کی مٹھاس سے زندگیوں میں شیرینی برقرار رہ سکے۔مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر میاں بیوی ،بہن بھائی ،ساس بہو ،داماد سُسر،باپ بیٹے،بھائی بھائی یا دوست و رشتہ داروں سے بلواستہ یا بلا واستہ ،جان بوجھ کر یا انجانے میں کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تو ہر کوئی اپنی اپنی اَنّا کی آڑ میں،ضِد اور ہٹ دھرمی دکھاتا ہےاور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بجائے یہی سونچتا رہتا ہےکہ ’’میں ہی کیوں‘‘ پہل کروں!غلطی تواس نے کی ہے،اس لئے پہلے وہ معافی مانگے۔یہاں تک کہ اسی اَنّا کے چکر میں یہ چھوٹی دراڈ بڑی کھائی بن جاتی ہیں اورپھر مضبوط سے مضبوط اورگہرے سے گہرا رشتہ بھی اس کھائی کی نذر ہوجاتا ہے۔
لہٰذا ، آپ زندگی میں جو کوئی بھی رشتہ نبھا رہے ہوں، یہ بات ہمیشہ ذہن نشین ہونی چاہئے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگنےیا کسی کی غلطی کو معاف کرنے میں پہل کرنےسے کسی کی پستی یا تذلیل نہیں ہوتی اور نہ کسی قسم کی حقارت کی دلیل ہے۔بلکہ رشتوں کو بحال کرنے میں پہل کرنا عقل مندی اور بڑے پَن کی ہی دلیل دلی ہے۔ظاہر ہے اگر آپکی پہل کی وجہ سے رشتوں میں سدھار آسکتا ہے۔تعلقات میںپھر سے محبت ،عزت و تکریم اورخوشی ومسرت لوٹ آسکتی ہیں تو ربّ کی رضا کی خاطر ہی پہل کیجئے اور آپکی اسی پہل کی وجہ سے نہ جانے کتنے گھر پھر سے شاد و آباد ہوسکتے ہیں اور آپ سب کی زندگیوں میں پھر سے بہاریں پھر سے آئیں گی۔
ایک بار بس ایک بار اس ’’میں ہی کیوں‘‘ کے جملے کو زندگی سے نکال دیجئے،زندگی آسان نہ ہو جائے گی ۔یہ ابلیس کا رویہ ہی تھاکہ اپنی اَنا کی زد میں وہ ربّ ِ تعالیٰ کی رحمت سے ہاتھ دھو بیٹھا،ہم تو انسان ہیں اور ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات ہے کہ ہم اپنی زندگیوں ’’میں ہی کیوں‘‘ کی سوچ پھینک دیں اور حقیقی معنوں میں دین ِ اسلام کی تعلیمات کی پیروی کریں۔انسان ہونے کے ناطے انسانیت کے وہ کام کریں ،جن پر اللہ تبارک تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائےاور اجر عطا کریں تاکہ ہماری زندگی کے سبھی معاملا ت ہوجائیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرتِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سےعبارت ہے،اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے،پُرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کی رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دُوررس نگاہ متاثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبّر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبویؐ کے اس پہلو کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
[email protected]