میری پسند، میری زندگی، میری خواہش ! زندگی و خاندان کے لئےتباہی کے سبب

عالیہ شمیم

انسانیت کی بقا کے لئے خاندان ضروری ہے اور میاں بیوی اس کی بنیاد ہیں، اگر یہ دونوں خوشگوار زندگی گزارتے ہیں تواس کا اثر خاندان کے ہر فرد پر پڑتا ہے لیکن زوجین کی الجھنیں اور کشمکش پورے گھر کی تباہی کا باعث ہوجاتی ہیں ،دونوں کی رنجشوں کی وجہ سے بچے بھی غلط روی اور کج روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ گھر ہی وہ بنیادی قلعہ ہے جہاں سے انسانیت اور تہذیب کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اچھی اولاد بہترین صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ ماں کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے رکھی ہے، ماں خاندان کے افراد کے درمیاں پل کا کام کرتی ہے۔
دور حاضر میں بڑھتی مغربی یلغار نے جہاں معاشرے کو متاثر کیا ہے وہیں خاص طور پر گھریلو زندگی و خاندان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ آج ہمارے چہار اطراف مسائل ہی مسائل ہیں۔ کہیں اولاد کی نافرمانی سے مائیں پریشان ہیں تو کہیں اولاد سے وابستہ کی گئیں توقعات کے پورا نہ اترنے پر والدین آرزردہ اور پریشان ہیں۔ضد ،ہٹ دھرمی، غصہ، حسد اور انتقام کی کیفیت نے بچوں کو والدین سے دور اپنی ذات میں قید کر دیا ہے۔
ان کی ہر سوچ ہر قدم اور ہر راستہ’’ میں‘‘ سے شروع ہو کر’’ میں‘‘ پر ختم ہوتا ہے۔ میری پسند، میری زندگی، میری آسانی، میری خواہش اور اسی سوچ کے پیچھے والدین کی تمام چاہتیں، محبتیں، توقعات سب کہیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ بچے، والدین کی بچپن میں کی گئی دیکھ بھال کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور بوڑھے والدین کی خدمات کو چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں۔
پیسے سے ضروریات تو پوری کر لی جاتی ہیں لیکن وقت نہیں دیا جاتا، نہ ہی والدین کی دلداری کے لئے بچوں کے پاس وقت بچتا ہے وہ اپنی الگ دنیا بسانے اور کیریئر کے چکر میں پیچھے ماں باپ کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں گوکہ کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں ہوتی نہ ہی ہر انسان مثالی ہوتا ہے اور نہ ہی اولاد سے لگائی گئی ہر توقع پوری ہوتی ہے۔ لیکن ایس بھی نہیں ہونا چاہیے جیسا ہورہا ہے۔
نظر آرہا ہے آج کے نوجوان اپنا فرض ادا کرنا نہیں جانتے صرف لینا جانتے ہیں البتہ اپنا حق لینا تو انہیں خوب یاد رہتا ہے لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت و تابعداری و عزت و احترام بھول چکے ہیں اور اس کی وجہ دینی تعلیمات سے دوری، گمراہی و بے حیائی ہے۔ عزت عصمت، عفت، لحاظ مروت و خوش خلقی جیسی صفات کے خاتمےسے بے غیرتی ،بدلحاظی، کینہ پروری جیسے محرکات جنم لیتے ہیں۔ اب اولاد والدین کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتی، نہ ہی مشورہ لیتے ہیں۔
دوستوں کی اہمیت ان کے لئے ماں باپ سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی نگاہ میں ان کے دوست زیادہ مخلص ہوتے ہیں کیونکہ وہ روک ٹوک نہیں کرتے بلکہ ہر الٹے سیدھے کاموں میں کل کے لئے آسانی و راہ سے کانٹے اٹھانے کے مترادف ہوتے ہیں۔ نادان دوستوں کا خمیازہ جب بھگتانا پڑتا ہے، تب تک بہت دیرہو چکی ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بعض والدین کی بے جا سختی بچوں کو اپنا دوست نہ بنانا بھی ہے۔ اولاد کی عزت نفس کا خیال کیے بغیر اسے ہمہ وقت اپنے عتاب کا نشانہ بنانا، لعنت ملامت کرتے رہنا، اس کے دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے اس کے عیوب کی کھلے الفاظ میں تنبیہ و تنقید کرنے سے اولاد کے دل سے عزت و احترام ختم ہوجاتا ہے۔
یہ ایسا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے کہ اولاد شخصی بحران کاشکار ہو جاتی ہے۔ اب تو والدین کی بات کی اہمیت کم ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگی ہے، پھر موجودہ دورسوشل میڈیا کا ہے جس نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا کر جہاں بہت سے علوم کی راہیں کھولی ہیں وہیں قرابت داروں، والدین سے دور بھی کر دیا ہے۔ اب ہر بچے کا اتالیق ہاتھ میں موجود گجٹ ہے، ٹیکنالوجی کے نام پر بچوں کے ہاتھوں میں سیل فون، ٹیبلٹ ان کی بینائی عقل ہوش سلب کر کے خیالوں کی دنیا کا باسی بنا رہے ہیں۔
صبر اور حکمت کی کمی، بعض اوقات ماں کی غلط تربیت یا تو بچے کو احساس برتری میں مبتلا کر دیتی ہے یا احساس کمتری میں اور یہ دونوں ہی بچے کے نقائص ہیں، اس کے برعکس اس کے حقیقت پسندانہ و متحمل مزاج، اور رب کی فرماں بردار شخصیت کی حامل اولاد والدین کی توقعات کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔
مادیت پرستی و تعیشات کی دلدادہ فضولیات و لغویات میں مبتلا اولاد آزاد معاشرے کا وہ تحفہ ہے جوزندگی کی راہ میں والدین کو اپنی نام نہاد ترقی کی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ایک بڑی وجہ جو اولاد کو خود غرض و بے نیاز بناتی ہے اور ان کو والدین سے دور کر دیتی ہے، اس کی ماں کا رویہ ہے۔بچے کے لئے تو ماں کے چہرے کے تاثرات بھی باتیں کرتے ہیں اور اس کی خاموشی بھی بولتی ہے۔ ایک عمومی ماحول یہ نظر آتا ہے کہ مائیں اولاد کے لئے سب کچھ کر رہی ہوتی ہیں مگرچڑچڑے پن اور بیزاری کے ساتھ، ماتھے پر بل ڈال کر بچوں پر یا تو چیختی چلاتی ہیں یا سامان پٹخ پٹخ کر غصے کا اظہار کر کے بد اخلاقی سے پیش آتی ہیں، یوں وہ انجانےمیں اولاد کو اپنے سے دور کر دیتی ہیں۔
بہت عرصے تک اولاد کو ماں کی خوبیوں کا ادراک نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی خاطر دی گئی قربانیوں کا خیال کرتے ہیں۔ والدین کو صرف اولاد کو پالنا ہی نہیں بلکہ محبت و شفقت کے اظہار سے اپنی اتنی چاہت دینی چاہیے کہ وہ شعوری مسلمان بن جائے، اور ان کی شخصیت سنور جائے، مضبوط شخصیت کی حامل اولاد بہت حد تک والدین کے لئے صدقہ جاریہ بنتی ہے نہ صرف اپنی زندگی کو مثبت طرز فکر میں گزارتی ہے بلکہ مسائل و مشکلات کا ادراک رکھتے ہوئے والدین کی توقعات پربھی پورا اترتی ہے۔ بیشتر جگہوں پر ماں کا ہمہ وقت گھر سےباہر رہنا، بچوں کو میڈیا کے حوالے کرنا یا تعلیم کےلئے ہوسٹل داخل کروا دینا بھی بری صحبت اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں اولاد کو مبتلا کر دیتا ہے۔
ہوسٹل میں اور تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی، منشیات کی لت بچے کوگھر کے حفاظتی حصار سے دور کر دیتی ہے۔ اولاد کے بھٹکنے میں کوئی کسر نہیں رہتی، نیز درسی موضوعات پر اسکولوں کی جانب سے نیٹ سرچنگ بھی بچوں کو گمرا کن افکار و سوچ میں مبتلا کر کے ذہنی طو رپر اغوا کر لیتی ہے اور والدین کی توقعات مانند ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں ضروری امر ہے کہ والدین خاص کر مائیں اپنی مشاغل میں ڈوبنے کے بجائے اولاد کے لئے وقت نکالیں، اوقات کے ضیاع اور غلط رابطوں سے بچاتے ہوئے ہر قسم کے موضوعات پر بچوں سے بات کریں، ان کی سوچ کو صحیح سمت کی جانب راغب کریں اور دینی تعلیمی موضوعات پر مبنی سائیٹس کی طرف اولاد کی رہنمائی کی جائے۔
دلیل اور حقائق پر مبنی بات ضرور اثر انداز ہوتی ہے، جبکہ لا حاصل بحث مباحثہ اور دوسروں کے بچوں کی بے جا تعریفیں اور موازنہ اپنی اولاد کو اپنے ہی سے متنفر کر دیتا ہے۔ اولاد کے مابین عدل و انصاف بہت ضروری ہے اس کی وجہ سے بھی بچے باغی ہو کر ماں باپ کی توقعات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔حدیث میں بھی اولاد کے مابین ایک جیسا سلوک نہ کرنے کو ناانصافی کہا گیا اور اس معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
آپس میں بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی و زیادتی سے بھی بچانا ماں کی ذمے داری ہے، بغض، عداوت، ذاتی رنجش، حسد، انتقام، بدکلامی، گالم گلوچ بھی غیر متوازن شخصیت کو جنم دیتے ہیں جس کا خمیازہ پھر والدین ہی کو بھگتنا پڑ تا ہے۔ انداز و اطوار گفتگو کا سلیقہ بزرگوں کا احترام سب کچھ مفقود ہو چکا۔ نام نہاد خود اعتمادی کی آڑ میں آزاد خیالی نے اس قدر بدلحاظ کر دیا ہے کہ اب بچے گھر سے نکلتے وقت ماں باپ کو بھی مطلع نہیں کرتے، نہ دعا لیتے ہیں، نہ اماں بچے پردم کرتی ہیں۔
ہر ماحول کے الگ تقاضے ہوتے ہیں ہر انسان کا مزاج الگ ہوتا ہے ، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں کوئی بنا بنایا فارمولہ ایسا نہیں کہ پھونک مارنے سے حل ہو جائے اولاد کو اپنی توقعات پر اتارنا ہے تو بہت ضبط، حوصلے و ہمت ، تحمل سے بچوں کی تربیت کریں۔ ان کو اعتماد دیں ان کو اپنا بنائیں، لاتعلقی کے بجائے ان سے بہترین تعلق استوار کریں پھر رب سے لو لگالیں۔ بے وقت کی راگنی اور نصیحتوں کی پٹاری کھولنے کے بجائے رشتوں میں مٹھاس پیدا کریں ۔ یاد رکھیں اولاد کی نگہداشت فرض ہے احسان نہیں، جوان اولاد سے لا محدود توقعات وابستہ کر کے ان کو اپنی ملکیت سمجھ لینا غلط طرز عمل ہے۔
اولاد کے دل پرراج اچھے رویے خلوص اور بے لوث و بے غرض محبت سے پیدا ہوتا ہے نفس و دل کی تنگی اور دو غلا پن تعلقات میں دڑاریں ڈال دیتا ہے۔ اپنے الفاظ اور ردعمل میں محتاط رویہ، کسر نفسی، لچکدار اصول گھر کے ستون کو مضبوط اور تعلقات کو بہترین کر دیتے ہیں۔
اولاد کو بھی اپنے والدین کی قربانیوں کا احساس دلانا ضروری ہے، ماں باپ اولاد کے لئے سراپا دعا ہوتے ہیں اولاد کی ترقی، سیدھی راہ اور استقامت کے ساتھ دین پر جمے رہنے کی دعا اس یقین سے مانگیں کہ ، اللہ کریم اولاد کے حق میں والدین کی دعا رد نہیں کرتا پھر توقع کریں کہ اولاد والدین کی نافرمان نہیں ہو گی۔ جو رب کا مطیع ہو گا وہ ماں باپ کا بھی فرماں بردار ہو گا۔