مٹھی بھر رقم سے کیسے بنے گا گھر ؟

فلاحی ریاستوں میں حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں۔چونکہ ہمارا ملک بھی جمہوری فلاحی ملک ہے تو ایسے میں اسملک کے اشرافیہ کی بھی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے اور وہ اپنے شہریوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔ہمارے ملک میں خط افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور غریبی اس ملک کی وسیع آبادی کا مقدر ٹھہری ہے ۔گوکہ حکومت کی جانب سے غریبی مٹانے کیلئے کئی سکیمیں چلائی جارہی ہیں تاہم سرکاری نظام میں موجود خامیوں اور بے انتہا کورپشن کی وجہ سے حوصلہ افزاء نتائج تاحال برآمد نہیںہورہے ہیں تاہم یہ بھی سچ ہے کہ صورتحال بدل رہی ہے ۔لوگوں کا معیار حیات بہتر ہوتا چلا جارہا ہے تاہم آج بھی اس ملک میں کروڑوں گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ایسے ہی غریب اور بے گھر لوگوں کیلئے اب اس ملک میں قریب دو تین دہائیوں سے ایک آواس یوجنا چل رہی ہے جس کو کانگریس دور میں اندرا آواس یوجنا کا نام دیاگیا تھا اور بی جے پی نے حکومت میں آکر اس کا نام تبدیل کرکے اس کو وزیراعظم آواس یوجنا کا نام دیا ۔یہ سکیم شہری اور دیہی علاقوںمیں بیک وقت چلائی جارہی ہے ۔دیہی علاقوں میں اس سکیم کی عمل آوری محکمہ دیہی ترقی و پنچایتی راج کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ شہری علاقوں و قصبوں میں اس کی عمل آوری محکمہ بلدیات و شہری ترقی کے ذریعے کی جارہی ہے ۔ہر سال پنچایت اور وارڈ کی سطح پر ایسے غریب لوگوں کو مکانات تعمیر کرنے کیلئے سرکاری معائونت فراہم کی جارہی ہے جن کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیںہوتی ہے تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سکیم سیاست کی نذر ہوچکی ہے اور صرف سیاسی اثر ورسوخ کرنے والے لوگوں یا پنچایتی و بلدیاتی نمائندوں کی جیبیں گرم کرنے والے لوگوںکو ہی اس سکیم کا فائدہ پہنچایاجارہا ہے جبکہ اصل مستحقین کو بروقت انصاف نہیں ملتا ہے اور انہیں دو کمروں کا آشیانہ بنانے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھاناپڑتی ہیں۔اس کی واضح مثال شمالی کشمیر کے پٹن کا وہ خاندان ہے جس کے بارے میں چند روز قبل گریٹر کشمیر میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوچکی تھی جو ایک ٹین کے شیڈ میں رہ رہا ہے لیکن انہیں آواس یوجنا کے تحت دو کمروںکا آشیانہ بنانے کیلئے سرکاری امداد نہیںمل پارہی ہے حالانکہ سرکار کا ہدف ہے کہ 2022تک شہری علاقوں میں سب کیلئے مکان کا خواب شرمندہ تعبیر کیاجائے۔حکام کا کہنا ہے کہ ان کے کیس کی منظوری دے دی گئی ہے اورانہیںجلد رقم مل جائے گی۔ حکام کو بغیر کسی تاخیر کے مدد فراہم کرنی چاہئے۔ اگر اب تک پیسے مل جاتے تو یہ خاندان سردیوں سے پہلے گھر بنا سکتا تھا۔تاہم سرکاری تاخیر کی وجہ سے انہیں دوبارہ ٹین شیڈ میں آنے والی سخت سردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ متعلقہ حکام کو ایسے معاملات پر تیزی سے کارروائی کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ متاثرین کو امداد ملے اور وہ بھی بروقت تاکہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں۔انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ امداد غریب لوگوں کیلئے ہے، جنہیں مالی مشکلات کی وجہ سے زندگی میں مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لئے سکیمیں شروع کرتی ہے تو متعلقہ عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ مستحق لوگوں تک سکیم کا فائدہ پہنچائیں۔ مراعات میں تاخیر غریب عوام کے ساتھ ناانصافی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے معاملات کی پیش رفت پر نظر رکھنے کے لئے اعلیٰ سطح پر بھی ایک طریقہ کار ہونا چاہئے۔کسی بھی غیر ضروری تاخیر کی صورت میں ضروری سرکاری کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔ مستحق لوگوں کو زیادہ انتظار نہیں کروایا جانا چاہئے۔بعض اوقات غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے وہ بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے کیسوںکی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میںانہیں پھر ایسی سکیموں کافائدہ نہیں ملتا۔یہ اس طرح کی فلاحی سکیموںکی اصل روح کو متاثر کرتا ہے۔ وزیراعظم آواس یوجنا۔گرامین کے تحت ایک مکان کی تعمیر کیلئے میدانی علاقوں میں 1لاکھ20ہزارروپے اور مشکل علاقوں (پہاڑی علاقوں) میں 1لاکھ30ہزارروپے کی مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ایسے گھروں میںبیت الخلاء، ایل پی جی کنکشن، بجلی کا کنکشن اور پینے کے پانی جیسی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ تعمیراتی سامان اور لیبر چارجز کی بڑھتی ہوئی لاگت کو دیکھتے ہوئے مالی امداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اتنی قلیل رقم میں دو کمروں کا مکان آج کی تاریخ میں تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس کا فیصلہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر کرنا ہے۔ اس وقت تک جو بھی مالی امداد مقرر کی گئی ہے وہ بغیر کسی تاخیر کے مستحق لوگوں تک پہنچنی چاہئے تاکہ انکی مشکل ترین زندگی میں انہیں کم ازکم ایک ذرا سی آسانی تومیسر ہوسکے۔