مُحسن ِکشمیر۔حضرت ِ میرسیّدعلی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ ولی اللہ

ابو نعمان محمد اشرف
ذِی الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہوتاہے ۔احترام وفضیلت والے چارہ ماہ میں یہ سب سے محترم و افضل ہے۔اسی ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ نے حج جیسی اہم عبادت فرض فرمائی اوربارہ گاہ الٰہی میں مسلمان عالم قربانی بھی پیش کرتے ہیں ۔ اسی ماہ ذی الحجہ کی ۶ ؍تاریخ کو ہم کشمیر ی مسلمان اپنے محسن عظیم حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ، جن کے بدولت ہم کفر اورشرک کی ذلالت سے نکل کرایمان کی نعمت سے مالا مال ہوکراسلام کی نور سے منور ہوئے۔اسی لئے مسلمانان کشمیراس روز ’’ یوم شاہ ہمدان‘‘ مناتے ہیںاور یہ سلسلہ تقریباً پچھلے سات سو برسوں سے جاری ہے۔یہ عطرِ گلاب ۱۲ ؍رجب المرجب ۷۱۴ھ کو شہر ہمدان میںسید شہاب الدین ؒ اور سیدہ فاطمہؒ کے چمن میں کھلا،اور اپنی خوشبو سے سارے عالم کو مہکادیا ۔
برصغیر میں اَن گنت صوفیائے کرام پیدا ہوئے ، جنہوں نے انسانیت اور اسلام کی بڑی خدمت کی، اُنہیں بزرگوں کے درخشدہ آفتابؒ حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔آپ ؒ ؒ نے پوری زندگی اللہ کی وحدانیت ، کلمتہ الحق اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف کی اوروادیٔ کشمیر کو دین اسلام کی روشن مشعل روشن سے منور کرگئے۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ نے کشمیر میں ایسے ثمر دار اشجار اور شیرین باغ لگائے جن سے رہتی دنیا تک کشمیری مسلمان مستفید ہوتے رہیں گے۔بلا شبہ پوری کشمیری قوم روز آخر تک حضرت شاہ ہمدان ؒ کی مرہون منت ہے ۔آپؒ نے نہ صرف ہمیں علم وعرفان اور راہ حق کی دولت سے مالامال کیا بلکہ معاشی ،سماجی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی لائی جوکشمیریوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں روز وروشن کی طرح عیاں ہے۔ ملتِ کشمیر اپنے اس محسن امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کے منفرد ، مخصوص اور معتبر مقام کی بدولت قلب وجگر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور رہے گی۔
حضرت شاہ ہمدان ؒ عارفوں کیلئے باعث فخر ہے ، جن کے دم سے معرفت کا باغ کھل اٹھا ، جس کی مثال اس کا مردِ خداکی عظیم الشان درگاہ خانقاہ معلی ہے، جہاں پرروزانہ عقیدت مندوں اور زائر ین کی ایک بڑی تعداد حاضری دے کر فیض حاصل کرتی ہے۔ اہلیان کشمیر آپؒ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں ۔
اسلامی تصوف کا منبع بلاشبہ قرآن پاک اورحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ا ور رسولِ رحمتؐ کا اُسوۃ حسنہ اس کی معراج ہے۔ تصوف وسلوک دین اسلام کی اصل روح ہے ۔یہ بات درست ہے کہ اوائل اسلام میں اسکی کوئی منطقی ترتیب عمل میں نہیں آئی تھی مگر اس کا آغاز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس تحریک کے ساتھ ہی ہوگیاتھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پاکیز ہ زندگی اس کا اولین وبہترین نمونہ ہیں ۔ علم الحدیث ،تفسیر،فقہ وغیرہ سب کے سب باضابطہ طورپر بعد میں وجود میں آئے ۔کیونکہ خلافت راشدہ کے بعد عالم اسلام میں جونہی ملوکیت داخل ہوئی تودین کی روح مجروح ہونا شروع ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں صوفیائے کرام کا پہلاطبقہ وجود میں آیا، جس کے سرخیل حضرت حسن بصریؒ ہیں۔ اسی طرح وادی کشمیر میں جن اولیائے کرام نے اسلامی تعلیمات شروع کی ان میں حضرت بلبل شاہ ؒ اور حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ سرفہرست ہیں۔حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانیؒ بیک وقت عارف کامل ،مبلغ دین ،مفسر ، محدث ،سیاح ،فلسفی اوراعلیٰ ادیب وشاعر باکمال تھے۔آپؒ کی تصانیف عربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گئی ہیں،جو مختلف موضوعات پر جن میں علوم قرآن ،سیاحت ، تصوف وعرفان اور دیگرقریباً ایک سو موضوعات ہیں۔ اورادفتحیہ جو توحید کا ایک لامثال نسخہ اور وضیفہ ہے،جس سے دل اور دماغ کوسکون ملتا ہے ۔حضرت شاہ ہمدانؒ کا بلند پایہ ادبی وعلمی شاہ کار تصنیف ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ دس ابواب پر مشتمل ہے اور یہ آٹھویں صدی ہجری کے ایک اہم تصنیف وتحریر ہے ۔ حضرت امیرکبیر رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اور شاہکار’’ چہل اسرار‘‘ بھی ایک گرانقدر تحفہ ہے ۔ علماء حق نے تصوف کی تعریف مختلف پہلوئوںسے کی ہے۔سیداوّلیا حضرت عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں۔ جس سے عابد کامقام مضبوط ہوجاتاہے،اللہ تعالی اور لوگوں کے نزدیک اس کا درجہ کامل اور بلند ہوجاتاہے ،دنیا اور آخرت کے جن کاموں کی کوشش کرے ،اُن پر قادر وتوانا ہوتاہے۔ یہ صفت ساری خصلتوں کی جڑ ہے بلکہ ساری عبادتوں کا ایک درخت ہے،شاخ دین۔اس خصلت کے طفیل آدمی کو وہ مقام نصیب ہوتا ہے جو ہر حال یعنی خوشی وغم میں راضی بہ رضائے حق رکھتا ہے۔یہ خصلت پرہیزگاری کا کمال ہے۔تواضع کے معنی یہ ہیں ’کہ ہر آومی کو ہر لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھا جائے اور دل میں یہ خیال کیا جائے کہ یہ شحض خدا کے نزدیک مجھ سے بہتر اور برتر ہے ،خواہ وہ اس سے کم تر ہی ہو۔
حضرت شیخ ابو نصرؒ فرماتے ہیں ۔کہ اس دنیا میں ہر علم کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ حد تصوف پر آکر ختم ہوجاتی ہے ،جبکہ تصوف کی حد کسی دوسرے علم پر ختم نہیں ہوتی اور علم تصوف کا وہ اعلیٰ ترین درجہ جسے علم الفتوح کہتے ہیں ۔اللہ کی طرف سے اپنے محضوص بندی کو عطاہوتاہے۔حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ اسلام کے مخلص اور جان نثار مبلغ تھے، ایک عظیم محاہد،عارف اور پُرعزم مومن تھے ۔جن کی نگاہ عرفان سے دلوں کی کایاپلٹ جاتی تھی۔
عہد جہانگیر کے معروف ترین قصیدہ گو اور ملک الشعراء طالب آملی کشمیر کی تعریف میں کہا۔ترجمہ:۔’’ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ قدرت نے یہاں کے لوگوں کی علم پروری، ادب شناسی اور معنوی فیوض سے مالامال کیا ہے۔ وادی کشمیر میں عقبری وباکمال شاعر ادیب، صوفیائے کرام، متقی اولیاء اوکابر رشی جنم لیتے رہے اور انہوں نے اہل ِدل، اہلِ یقین حضرات کی ہدایت اور رہنمائی کی خاطر عوام الناس کے لئے اپنی زندگی وقف رکھی تھی۔ جتنے بھی غیر ملکی خدا دوست سالک، رشی و صوفی وارد کشمیر ہوئے ،اُن میں سے کسی نے بھی لوگوں پر اُتنا اثر نہیں ڈالا جتنا حضرت شاہ ہمدانؒ کی شخصیت نے ڈالا ہے۔‘‘
حضرت سید کے ساتھ جو سادات آئے تھے، اْن میں کچھ نے یہاں پر مستقل سکونت اختیار کی۔،اُن تمام سادات نے حضرت شاہ ہمدانؒ کے نقش قدم پر دینی خدمات بخوبی انجام دیں اور اپنی پوری زندگی رشد و ہدایت میں بسر کی۔
حضر ت شاہ ہمدانؒ تین بار کشمیر تشریف لائے۔ پہلی بار سلطان شہاب الدین کے عہد حکومت یعنی ۷۷۴ھ میں اوریہاں صرف چارماہ رہنے کے بعد واپس تشریف لےگئے۔دوسری بار۷۸۱ھ میں، اِس بار آپؒ نے اپنےساتھ سو سادات کی جمعیت لائی تھی، جنہوں نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں قیام کیا اور لوگوں کو اِسلام کی طرف راغب کیا اور سماجی ،معاشی زندگی میں تبدیلی لانے میں لو گوں کی رہنمائی فرمائی۔ آپ بذات ِؒ خود محلہ علاوالدین پورہ، جس کو اس وقت خانقاہ معلی کے نا م سے جاناجاتاہے،تشریف فرما رہے۔اس کے بعد آپؒ پھر واپس روانہ ہوئے اور تیسری مرتبہ ۷۸۵ھ میں پھر وادیٔ کشمیرتشریف لائے اور ایک سال قیام کرنے کے بعد واپس تشریف لئے گئے ۔ حضرت شاہمدان ؒ ذخیرۃ الملوک میں لکھتے ہیں کہ اگر تیرے نفس کاکتاتیرے قابومیں ہے توجان کہ بہشت تری ملکیت ہے ، خواہشات سے منہ موڑ لینا سروری ہے،خواہشات کو ترک کرنا شیوۂ پیغمبری ہے۔
المختصر آسمان تصوف کے یہ درخشدہ آفتاب ،اسلام کے جان نثار مبلغ اور اعلیٰ رُتبے کے ادیب حضرت امیرکبیر میرسید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ ۶ ؍ذی الحجہ ۷۸۶؁ھ میں کناُر میں اس ظاہری دنیا فانی کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ وانااللہ راجعون۔بعد میں آپؒ کے جسدخاکی کو ختلان لے جاکر ۱۲ ؍جمادی الاول ۷۸۷؁ھ کو آسودہ کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نیک لوگوں کی صحبت میں رکھے اور توحیدو سنت کی پیرروکاربنائے آمین
( اومپورہ بڈگام،رابطہ۔ 9419500008)