مویشیوں میں گانٹھ کی بیماری مفت علاج کا اعلان باعث ِ راحت ،فوری عمل ہو

لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی والے انتظامی کونسل نے بالآخر متاثرہ کسانوں کی فریاد سنتے ہوئے جموںوکشمیر کے مویشیوں میں گزشتہ چند ماہ سے طوفان کی تیزی سے پھیل رہی گلٹی دار جلد کی بیماری کا تدارک کرنے کیلئے متاثرہ کسانوں کو مفت ویٹرنری ادویات مہیا کرنے کو منظوری دی ہے ۔اب گزشتہ ایک دو ماہ سے مسلسل حکومت سے یہ فریاد کی جارہی تھی کہ متاثرہ کسان اس بیماری سے متاثرہ اپنے مویشیوں کو علاج کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ اس بیماری کے علاج پر کم از کم دس ہزار روپے لگتے ہیں اور کسانوں کیلئے دس ہزار روپے کا بندو بست کرنا ممکن نہیں ہے۔

 

اب جبکہ انتظامی کونسل نے گلٹی دار بیماری سے متاثرہ مویشیوں کے مفت علاج کا اعلان کردیا تو یہ امید بند ھ گئی ہے کہ اب شاید حالات بدل جائیں گے تو متعلقہ محکمہ کی جانب سے جس طرح سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے دعوے کئے جارہے تھے تو زمینی صورتحال اس کے بالکل تھی اور ہم بار بار انہی سطور میں متعلقہ حکام پر یہ باور کرانے کی کوشش کررہے تھے کہ جو آپ آئے روز کاغذی گھوڑے دوڑانے کی کوشش کررہے ہیں،اُن کا زمینی صورتحال سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے لیکن حکام تھے کہ وہ ہماری بات ماننے کو تیار نہیں تھے اور آئے روز اعدادوشمار دیکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ نہ صرف ٹیکہ کاری کا عمل شدومد سے جاری ہے بلکہ بڑے پیمانے پر بیداری مہم بھی چلائی جارہی ہے ۔تین روز قبل22نومبر کوجموںکے سیول سیکریٹریٹ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری محکمہ زرعی پیداوار اتل ڈلو کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں محکمہ پشوپالن کی جانب سے دعویٰ کیاگیاکہ زائد اَز96فیصد اہل مویشیوں کو گلٹی دار جلد بیماری سے بچائو کا ٹیکہ لگایا جاچکا ہے اور ٹیکہ کاری کا ڈیٹا بھی آن لائن اَپ ڈیٹ کیا جارہا ہے۔اب جس طرح متاثرہ مویشیوں کے مفت علاج کا اعلان کیاگیا ہے تو کیا متعلقہ محکمہ سے یہ سوال نہیںبنتا ہے کہ اگر 96فیصد مویشیوں کی ٹیکہ کاری ہوچکی ہے تو باقی بچے چار فیصد مویشیوں کے مفت علاج کی کیا تُک بنتی ہے؟۔عقل کہتی ہے کہ جب ٹیکہ کاری تقریباً مکمل ہوچکی ہو تو پھر سرکار کی جانب سے مفت علاج کا اعلان کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے لیکن جس طرح انتظامی کونسل کی جانب سے مفت علاج کو منظوری دی گئی تو یہی تاثر ملتا ہے کہ انتظامی کونسل بالعموم اور خود لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی متعلقہ محکمہ کی دلیل ماننے کو تیار نہیں ہے اور وہ بھی سمجھتے ہیں کہ جو تصویر محکمہ کی جانب سے پیش کی جارہی ہے ،وہ زمینی صورتحال کے عین برعکس ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب مفت علاج کا اعلان کیاگیا کیونکہ بادی النظر میں انتظامی کونسل سمجھتی ہے کہ ابھی مویشیوںکی بڑی تعداد تک علاج نہیں پہنچ پایا ہے اور جب علاج مفت دستیاب کرایا جائے تو سب مویشیوں کی ٹیکہ کاری ممکن ہو پائے گی اور اس کے نتیجہ میں اس بیماری پر قابو پانا آسان بن جائے گا۔متعلقین نے اس بیماری کو کتنا سرسری لیا ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ گزشتہ روز24نومبر کو مفت علاج کی منظوری کے حوالے سے سرکاری ترجمان کی جانب سے جو بیان جاری کیاگیا ،اُس میں کہاگیا کہ اب تک جموںوکشمیر کے بیس اضلاع میں56146مویشی گانٹھ کی بیماری سے متاثر ہوئے ہیں اور 1564لقمہ اجل بن چکے ہیںاور یوں شرح اموات 2.79فیصد ہے جبکہ 3روز قبل اتل ڈلو کی سربراہی والی میٹنگ میں محکمہ پشوپالن کی جانب سے جو اعدادوشمار فراہم کئے گئے ،اُن کے مطابق 21نومبر تک جموںوکشمیر میں اس بیماری سے 72 ہزار سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے تھے جومویشیوں کی کُل آبادی کا تقریباً 2.3فیصد ہے ۔ اُسی میٹنگ میں بتایا گیا کہ ماہرین کی کوششوں سے مویشیوں کے صحت یاب ہونے کی شرح 90فیصدہے اور اوسط اموات کی شرح تقریباً 4فیصد ہے۔ایسے میں اب کس پر یقین کیاجائے جب اعدادوشمار میںہی تضاد موجود ہے ۔یہی تضاد بدیہی طور متعلقہ محکمہ کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کردیتا ہے کیونکہ ایسے لگ رہا ہے کہ کہیں کوئی تال میل ہی نہیں ہے ۔حکومتی اعدادوشمار اپنی جگہ ،تاہم زمینی سطح پر لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور بھلے ہی ٹیکہ کاری اور ٹاسک فورسوں کا قیام عمل میں لایاگیا ہے لیکن زمینی سطح پر کچھ زیادہ بدلتا ہوا نظر نہیںآرہا ہے۔ہم نے ایک ماہ قبل ہی بتایا تھا کہ حکومت کی جانب سے دونوں صوبوںمیں ٹاسک فورس تشکیل دیکر ٹیکہ کاری مہم شروع کرنے کے باوجود جموں خطہ کے بیشتر حصوں میں گھریلو مویشیوں میںگانٹھ کی بیماری خطرناک حد تک پھیلتی جارہی ہے اور اس بیماری کی وجہ سے جہاں اب تک سینکڑوں مویشی ہلاک ہوچکے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں مویشی اس بیماری سے جوجھ رہے ہیں۔ میدانی جموں کے سارے اضلاع اور خطہ پیر پنچال وچناب میں یہ بیماری مویشیوںکو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی تاہم اب کشمیر بھی بری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا ہے اور شرح اموات کشمیر میں ہی زیادہ ہے۔ سرکار اور متعلقہ حکام کو بھی چاہئے کہ زیادہ کاغذی گھوڑے دوڑانے کے بجائے زمینی سطح پر کام کیاجائے تاکہ کسانوںکو فوری ریلیف مل سکے ۔اب جبکہ مفت علاج کا اعلان ہوچکا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اب زمینی سطح پر کام ہوگا ۔جب زمینی سطح پر کام ہوگا توکاغذی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیںپڑے گی کیونکہ کام بولتا ہے ۔