موسمیاتی تبدیلیاں اور منڈ لاتے خطرات ماحولیات

نداسکینہ صدیقی
براعظم ایشیا میں صحت، صنعت اور ماحولیاتی نظام کو لاحق خطرات میں اضافے کی وجہ عالمی حدت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج (IPCC)کی رپورٹ کے مطابق براعظم ایشیا میں پانی کا بحران خطرناک صورت اختیار کررہا ہے۔ ادارے کے مطابق بڑ ھتی ہوئی آبادی کی آبی ضروریات، معیار زندگی میں اضافے، اس حوالے سے خراب انتظامی صو ر ت حال اور اس کے ساتھ رونما ہونے والی موسمیاتی تبد یلیاں ایشیا کے ایک بڑے حصے کو میٹھے پانی کی کمی سے دو چار کرسکتی ہیں۔ واضح رہے کہ انٹرگورنمنٹل پینل آن کلا ئمٹ چینج (IPCC) ہزاروں سائنس دانوں کی ایک انجمن ہے جنہوں نے کلائمٹ چینج کے اثرات پر تحقیق کے لیے ایک مرکزی بین الاقوامی باڈی تشکیل دی ہے۔پانی کی دست یابی پر بدلتے موسموں کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سائنس داں کہتے ہیں کہ بارشوں کی مقدار اوردریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی بلاشبہ لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوگی اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہی ایشیا کے کچھ ایسے حصوں میں جو خاص طور پر کم پانی والے یا خشک علاقے ہیں، کشیدگی پیدا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بد انتظامی یقیناً خشک سالی اور موجودہ کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیا میں پانی کے فراہمی کے نظام کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہوں گی اور زراعت اورلائیو اسٹاک پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق اس صدی کے نصف تک ایشیا کی شہری آبادی میں 1.4 ارب تک کا اضافہ ہوجائے گا اور یہ دنیا کی آبادی کا 50 فی صدہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کئی ایسے مسائل کو مزید پے چیدہ بنادےگی،جو شہروں کی جانب تیز رفتارنقل مکا نی، صنعتوں میں اضافے اوراقتصادی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔ براعظم ایشیا موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث2000 سے2008 تک دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا کرچکا ہے جن کی وجہ سے اسے بھاری اقتصا دی نقصانات اٹھانے پڑے۔ یہ عالمی ا قتصا دی نقصانات میں تناسب کے لحاظ سے دوسرا بڑا اقتصادی نقصان (27.5 فی صد) ہے۔ایشیا کی آبادی کا بڑا حصہ غیر ترقی یافتہ اور نشیبی ساحلی علاقوں میں رہتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہیں۔ ان خطرات میں سطح سمندر اور سمندری طوفانوں میں اضافہ ہوناشامل ہے۔ ایشیا کے نصف سے لے کر دو تہائی شہروں( جن کی آبادی ملین یا اس سے زاید ہے)کے رہائشی مختلف اقسام کے خطرات کا شکار ہیں جن میں سیلا ب اور طوفان سب سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں۔
دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ پانچ شہروں میں سے تین ،ٹوکیو، دہلی اور شنگھائی ان علاقوں میں واقع ہیں جہاں سیلابوں کا شدید خطرہ موجود ہے اور موسمیاتی تبد یلیو ں سے درپیش ان خطرات کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔2070 تک آبادی کے لحاظ سے ایشیا کے اہم شہر سیلابوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اثاثوں کے لحاظ سے اہم ایشیائی شہر قدرتی آفات کا شکار ہوسکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیاں بھارت، بنگلا دیش اور چین کے کم زور علاقوں (لوگوں کی بڑی تعداد اور انفرا اسٹرکچر کے ساتھ) میں سیلاب کے خطرات میں اضافہ کریں گی۔دوسری جانب ساحلی سیلابو ں اور سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ان خطرات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی بنیادی سہولتوں میں خلل پڑنے کا خطر ہ بھی ہے، جیسے پانی اور توانائی کی فراہمی، صفائی، ذرائع آمدورفت وغیرہ۔ ان مسائل کی وجہ سےمقامی معیشت کو سنجیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور یہ مقامی سطح پر بہت بڑی ہجرت کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
براعظم ایشیا میں مستقل اور شدید گرم لہریں کم زور گروہوں کی شرح اموات اور صحت کی خرابی میں اضافہ کریں گی۔ شدید بارشوں اور گرمی میں اضافے سے ڈائریا کے مرض، ڈینگی بخار اور ملیریا میں اضافہ ہوگا۔سائنس دانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، جیسے سیلابوں میں اضافہ اور گرم موسم وغیرہ، کئی مسائل کو جنم دیں گے، جیسے پانی کا خراب معیار، مچھروں کی افزائش اور پھیلاؤاور مختلف وبائی بیماریوں میں اضافہ۔
سیلاب کی وجہ سے شہروں میں پانی کی فراہمی کے نظام میں آلودگی پیدا ہوگی ، امراض کی افزائش ہوگی اور زہریلے مرکبات تشکیل پائیں گے۔عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق بہت زیادہ سیلاب ذہنی بیماریوں اور post traumatic stress syndrome ( کسی مصیبت، حادثے یا آفت کے بعدپیدا ہونے والی ذہنی حالت ) کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق درجہ ٔحرارت میں اضافےاور گر می کی لہروں سے شرح اموات اور امراض میں اضافے کا خدشہ ہے، خاص طور پر وہ افراد جو سانس اور دل کی بیما ریوں میں مبتلا ہیں، کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ مزدوروں میں مختلف بیماریاں پیدا کرے گا ،جس سے پیداواری عمل متاثر ہوگا۔موسمیاتی تبدیلیاں موسمی بیماریوں پر بھی مقامی طور پر اثر انداز ہوں گی۔ بارش کی کثرت اور گرمی میں اضافے سے کچھ علاقوں میں ڈائریا کے مرض میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نباتاتی نظام میں بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ پودوں کی افزائش، پھولوں کے کھلنے اور پودوں کی اقسام میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہے۔ برفانی سطح (Permafrost) اور مستقبل کی موسمیاتی تبدیلیاں ان اثرات میں مزید اضافہ کرسکتی ہیں۔ وسیع ماحولیاتی نظام میں موسمیاتی تبدیلیاں خصوصاًخشک اور نیم خشک علاقوں میں شدید اثرات مرتب کریں گی۔ سائنس دانوں کے مطابق بارشوں کی غیر یقینی صور ت حال اس حوالے سے کسی پیش گوئی کو مشکل بنادیتی ہے۔ایشیا میں ساحلی اور سمندری نظام کو موسمیاتی اور غیر موسمیاتی، دونوں طرح کے بڑھتے ہوئے خطرات سے مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ علاقے جان داروں کی کئی ا نواع، بہ شمول معاشی لحاظ سے اہم مچھلیوں کی افزاش کی جگہیں ہیں۔ سمندروں کا بڑھتا ہوا در جۂ حرارت اور سمندروں میں تیزابیت مونگے کی چٹانوں کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے، جس سے معیشت اور روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں شمالی جنگلات والے حصوں میں قبل از وقت موسم بہار اور ہریالی کے باعث مرطوب موسم کے دورانیے میں اضافہ متوقع ہے، جس کی وجہ سے کیڑوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضا فہ ممکن ہے۔ شمالی جنگلات مزید شمال اور مشرق کی طرف پھیل سکتے ہیں۔