منشیات کی وباءپر کیسے قابو پایا جائے؟ فکر و ادراک

نثارگنائی۔ منڈی
اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کشمیر میں بھی گزشتہ کئی ماہ سے نشہ مکت بھارت ابھیان کی سرگرمیاں زوروں پرہیں، خاص طور پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ شہری و دیہی علاقوں میں بھی پروگرام منعقد کئے جارہے ہیں اور نشہ مکت بھارت ابھیان کو حقیقت بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ تاہم تمباکو اور دیگر منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ جموں وکشمیر کو ہندوستان کا تاج کہا جاتا ہے جوکہ منشیات کی وبا سے لت پت ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی  اس کی لہر بڑھتی جارہی ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نیشنل ڈرگ ڈیپنڈس ٹریٹمنٹ سنٹر کے ذریعے حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق جموں کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہوچکی ہے۔یہ کل ایک کروڑ چھتیس لاکھ آبادی کا 7.35 فیصد ہے۔ نشوں کے شیدائی اپنی جان کے دشمن بن بیٹھے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ زندگی کی قدر کرنے کے بجائے اسے برباد کرنے پر تُلے ہوئےہیں جبکہ منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن بن گئےہیں جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں کم عمر کے بچے تمباکو اور دیگرمنشیات کا شکار ہو رہے ہیں۔ منشیات میں کسی بھی طرح سے ملوث افراد اور اس کا استعمال کسی خاص جگہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے برُے اثرات کا شکار ہے۔اس کے عادی افراد کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی، معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہیروئن کے عادی بن گئے ہیں۔جموں وکشمیر میں تمباکو،بھنگ، چرس،گانجا، ہیروئن، سفید پاؤڈر، براؤن شوگر، افیون، نشہ آور پکوڑے، بھنگ کے پاپڑ اور اس کے علاوہ نشہ آور ادویات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں جن میں کوریکس، نشہ آور انجکشن اور نشہ آور گولیاں بھی شامل ہیں۔ یہ مادے کئی طرح سے لئے جاتے ہیں، کچھ کو کھایا جاتا ہے کچھ کو سونگھ کر لیا جاتا ہے اور کچھ انجکشن کے ذریعے نس میں چڑھایا جاتا ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) کے ذریعے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 8,50,000 انجکشن کے ذریعے منشیات لئے جاتے ہیں، قریب 4,60,000 بچے اور 18,00000 بالغ سونگ کر نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں،جبکہ تمباکو کا استعمال کھلےعام ہو گیاہے۔ اسی حوالے سے منڈی کے مقامی صحافی اور دانشور کا کہنا ہے کہ اگر چہ نوجوان نسل میں ترقی اور خوشحالی کا شوق وجذبہ ہے۔ تاہم یہ شوق اور جذبہ گنے چنے شہری اور ترقی یافتہ علاقوں تک ہی محدود ہے، جہاں ہر طرح زندگی کی سہولیات میسر ہیں۔ اس کے برعکس دیہی علاقوں میں نوجوان نسل بجائے ترقی و خوشحالی کے اپنی زندگیوں کی تباہی اور بربادی میں بڑے شوق سے منہمک ہیں۔ سماج اور معاشرہ کے ماحول سے متاثر ہوکر منشیات کی لعنت سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جن بچوں کی تربیت والدین کے ہاتھوں بچپن میں ہی اپنے لئے نشہ آور اشیاء کو منگوانے سے کی جاتی ہے۔ تمباکو، نسوار، بیڑی، گُٹکا یا سگریٹ کو معمولی سمجھ کر بچوں کے ذریعے دوکان سے منگوایا جاتا ہے، جو کہ اکثر علاقوں میں ایک معمول ہے۔ آخر میں یہی معمول بچوں کو نشہ کی طرف راغب کرتاہے اور وہ چرس، گانجا، بھنگ اور ہیروئن جیسی بُری چیزوں کا استعمال کرنے لگتا ہے۔ بچے پہلے شوقیہ نشہ کرتے ہیں، کچھ عرصہ بعد عادت بن جاتی ہے اور پھر مجبوری۔ جب مجبوری بنتی ہے تو اس کو حاصل کرنےکے لئے وہ کچھ بھی کرگزرتے ہیں، چوریاں، ڈکیتیاں،تعلیم سے دوریاں،والدین کی گسُتاخیاں،یہاں تک کہ خودکشی تک کی نوبت آ جاتی ہے۔گویا جس کا آغاز معمولی سمجھ کرکیا جاتا ہے، وہ ایک وبال بن کر سماج کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیتاہے۔
اس سلسلے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس (NIMHANS) کی ڈاکٹر ایشا شرما کہتی ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ نوعمر لوگ منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں معلومات زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ایکسپوز زیادہ ہے، اس لیے منشیات کا شکار ہونے کے امکانات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، جس کے سبب بچے نشہ آور اشیاء کا تجربہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایشا کا کہنا ہے کہ کچھ بچوں کی شخصیت یا مزاج اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ ان میں تجسّس زیادہ ہوتا ہے۔ وہ نئی نئی چیزیں کرنا چاہتے ہیں ،خطرہ مول لینا چاہیے ہیں، تجربہ کرنے کی فطرت ان میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کا مزاج مخصوص سماجی اور خاندانی حالات میں انہیں منشیات کی طرف مائل کرسکتا ہے۔ضلع بانڈی پورہ کے ایک مڈل اسکول کی ہیڈ مسٹریس محترمہ تبسم کشمیری بتاتی ہیں کہ کشمیر کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ ضلع بانڈی پورہ میں بھی منشیات کی وباء دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ حالانکہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے اس سماجی علت کو روکنے کے لئے مُہم چلائی جا رہی ہیں تاہم ان تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود منشیات کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک شخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بانڈی پورہ کا ر ایک شخص منشیات کا اتنا عادی ہو گیا کہ بہت کم وقت میں وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا، اور بعد ازاں اُسے پاگل خانے میں بھرتی کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کو منشیات کے کالے کاروبار کے خلاف سختی کے ساتھ لوگوں کو اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنی ہوگی کیونکہ شعور اور سختی کی مدد سے ہی منشیات کی خرید و فروخت پر قدغن لگائی جاسکتی ہے۔
`دور جدید میں ہو رہی سائنسی تحقیق اس بات کی کھوج میں ہیں کہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے منشیات کی لت میں تبدیل ہونے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں؟ منشیات کی لت لگنے کے بعد انسان اپنے اہل وعیال، دوستوں اور سماج سے الگ رہنا پسند کرتا ہے اور نشہ آور اشیاء کو حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔یوٹی جموں وکشمیر کے لگ بھگ سبھی اضلاع گزشتہ تین دہائیوں سے منشیات کی اِس سماجی علت کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل نے بھی جنم لے لیا ہے جیسے ذہنی دباؤ وغیرہ۔ اب اس ضمن میں سرکار کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔وہیں عوام کو بھی حکومت اور پولیس کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی دیکھ ریکھ کی جائے، دیہی اور شہری علاقوں میں نوجوانوں کی اصلاح کی جائے اور بااثر شخصیات کی موجودگی میں نوجوانوں کے درمیان میٹنگز کا اہتمام کیا جائے، دوکانداروں کے مابین بھی الگ میٹنگز رکھی جائیں ،جس میں انہیں اس بات پر متوجہ کیا جائے کہ وہ اپنی دکانوں اور ہوٹلوں میں کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کو ہرگز جگہ نہ دیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ارِد گرِد کی دوکانوں کا وقتاً فوقتاً معائنہ کیا جانا چاہیے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر اور کسی بھی قسم کے اجتماعی پروگراموں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی لگائی جائے تاکہ سماج سے اس بُری لعنت کا حقیقی طور پر خاتمہ کیا جاسکے۔