مفت صحت بیمہ سکیم… نادار مریضوں کا واحد سہارا

 

جموں وکشمیر میں آیوشمان بھارت۔وزیراعظم جن آروگیہ یوجنا کے تحت مفت صحت بیمہ ایک انقلابی سکیم ثابت ہورہی ہے کیونکہ26دسمبر2020کو وزیراعظم نریندرمودی کی جانب سے رائج کرنے کے بعد سے اب تک اس سکیم کے تحت 6لاکھ سے زائد مریضوں نے ملک کے مختلف سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اپنا مفت علاج کرایا ہے جس پر 700کروڑ کے قریب روپے صرف کئے گئے ہیں۔اس سکیم کے تحت اب تک 70لاکھ60ہزار لوگوں کو رجسٹر کیاگیا ہے جبکہ تاحال 70لاکھ50ہزار گولڈن کارڈ جاری کئے گئے ہیںاور ہدف جموںوکشمیر یوٹی کی مکمل آبادی کو اس سکیم کے دائر ے میں لانے کا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ایک خاص استثنیٰ کے تحت صرف جموںوکشمیر میں سبھی شہریوں کو اس سکیم کے دائرے میں لانے کا فیصلہ لیا ہے جبکہ باقی ملک میں صرف خط افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگ ہی اس سکیم کا فائدہ اٹھاپارہے ہیں۔وزیراعظم جن آروگیہ یوجنا۔صحت سکیم کے ذریعے جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو مفت ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا اہتما م کیاگیا ہے اور اس میں سبکدوش سرکاری ملازمین اور انکے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔یہ سکیم بالکل مرکزی حکومت کی سکیم ’آیوش مان بھارت سکیم‘کے طرز پرچل رہی ہے اور اس سکیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں وہ سبھی لوگ بھی آجاتے جو آیوش مان بھارت سکیم میں رہ گئے تھے۔یہ سکیم واقعی اُن مریضوں کیلئے ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح ہے جو دائمی مرض کے شکار ہیںاور ان میں یہ امید جاگ گئی ہے کہ اب کم از کم وہ علاج کو نہیں ترسیں گے اور انہیں اب مناسب اور مفت علاج مل رہا ہے۔چونکہ آیوش مان بھارت سکیم کے تحت صرف 2011میں کی گئی سماجی و معیشی مردم شماری میں سطح افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے کنبے ہی مستفید ہورہے تھے جبکہ جموںوکشمیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس مردم شماری میں زمینی سطح پر ہوئی دھاندلیوں کی وجہ سے اس فہرست میں جگہ نہیں بناپایا تھا جس کے نتیجہ میں ایسے کنبوں کیلئے علاج و معالجہ کی سہولت انتہائی کٹھن بن چکی تھی تاہم اب اس نئی سکیم کے تحت چونکہ پوری آبادی کا احاطہ کیاگیا ہے تو اب وہ سارے مریض ،جو سرطان یاناکارہ گردوں کے امراض کے علاوہ دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں،انہیں ایک بڑی پریشانی سے نجات مل گئی ہے کیونکہ اب وہ نامزد سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گولڈ ن کارڈ کی طرز پر اس سکیم کے تحت دئے جانے والے ایک ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اپنا مفت علاج کراپا رہے ہیں اور اُنہیں ہسپتالوں میںکوئی پیسہ جمع نہیں کرنا پڑ تاہے ۔ حکومت کو بخوبی عوامی مشکلات کا ادراک ہے اور شاید اسی وجہ سے اس سکیم کو رائج کیاگیا ۔حکومت بخوبی جانتی ہے کہ ہمارے یہاں بیماریاں اس قدر عام ہوچکی ہیںکہ اب ہر گھر میں مریض موجودہے ۔ہسپتالوں اور نجی کلینکوں و تشخیصی مراکز پر لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر ہی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ یہاں بیماروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور اب تو ایسے بیماروں کی ایک فوج بھی یہاں تیار ہوچکی ہے جنہیں علاج و معالجہ پر ماہانہ 20سے50ہزار روپے خرچ کرناپڑ رہے ہیں جو اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو اب رضاکار فلاحی اداروں کے دفاتر کے باہر دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ زکواۃ کی رقم کے منتظر ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا علاج جاری رکھ سکیں لیکن چونکہ مریضوںکی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے تو ایسے فلاحی اداروں کیلئے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کی طبی ضروریات کو پورا کرنا مشکل بن چکا تھا ۔تاہم اس نئی سکیم کے تحت نہ صرف ان فلاحی اورخیراتی اداروں کا بوجھ بتدریج کم ہورہا ہے بلکہ مریض بھی بہتر علاج و معالجہ یقینی بناپارہے ہیںکیونکہ ہر کنبہ سالانہ پانچ لاکھ روپے تک علاج و معالجہ پر خرچ کرسکتا ہے اور اس کیلئے یہ شرط بھی نہیں رکھی گئی تھی کہ اس سکیم کے تحت اندراج ہونے والے لوگ پہلے توانا ہوں بلکہ پہلے سے بیمار لوگوں کو بھی اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ یہ سکیم یقینی طور پر جموںوکشمیر کے لاکھوں مریضوں کیلئے جینے کا سہارا بن چکی ہے تاہم نجی ہسپتالوں کی مسلسل شکایت رہتی ہے کہ انہیں سرکار کی جانب سے مفت علاج کے مد پربروقت پیسوں کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔گزشتہ دنوں بھی کشمیر کے نجی ہسپتالوں نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس کرکے واجبات کی فوری ادائیگی کی مانگ کرتے ہوئے متنبہ کیاتھاکہ اگر سرکار واجبات فوری طور ادا نہ کرے تو انہیں گولڈن کارڈ کے تحت مفت علاج کی سہولت بند کرنا پڑے گی کیونکہ ان کے پاس اب گولڈن کارڈ کے تحت مفت علاج یقینی بنانے کیلئے سرمایہ ہی نہیں بچا ہے ۔گوکہ بعد میں ادائیگی ہوگئی تاہم سرکار کو یہ معمول بناناچاہئے کہ نجی ہسپتالوں کو ماہانہ بنیادوں پربلا تاخیر ادائیگی ہو۔اس کے علاوہ یہ بھی شکایات ہیں کہ جموںوکشمیر اور ملک کے مختلف حصوں میں مخصوص نجی ہسپتال یہ گولڈن کارڈ ماننے سے انکاری ہیںاور وہ مریضوں کو اس کارڈ کے تحت مفت علاج فراہم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔سرکار کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا چاہئے کہ گولڈن کارڈ پورے ملک کے نجی ہسپتالوں میں چلے تاکہ مریض اپنی پسند کے ہسپتال میں اپنا علاج کرسکیں۔مزید یہ شکایات بھی عام ہیں کہ اس آفاقی صحت بیمہ سکیم کے تحت نجی ہسپتال دوران علاج بے ضابطگیاں بھی کررہے ہیں اور خاص طور پر گردوں کے مریضوں کیلئے ڈیالیسز کے نام پر رقوم کا بھاری ہیر پھیر ہورہا ہے۔متعلقہ حکام کو ان الزاما ت کی بھی تحقیقات کرنی چاہئے اور یقینی بناناچاہئے کہ یہ سکیم شفاف انداز میں چلے تاکہ غریب اور نادار مریضوں کو اس کا بھرپور فائدہ مل سکے ۔