معیشت اور اُس کے قواعد  | امیر ممالک کا غریب ممالک پر شکنجہ تاریخی حقائق

شفیق احمد آئمی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کے بینک کیسے کام کرتے ہیں؟ دراصل بینک پیسوں کے لین دین کا ایک ذریعہ ہے جہاں ہم پیسے رکھنے کے ساتھ ساتھ ادھار بھی لے سکتے ہیں۔ ’’کیپیٹلزم‘‘ میں بینک سود پر نہ صرف کاروبار کرتا ہے بلکہ ادھار بھی سود پر ہی دیتا ہے۔ ملک کے اندر ایک ’’سینٹرل بینک‘‘ ہوتا ہے جس کے ساتھ باقی تمام بینک اٹیچ یا کنکٹ connect ہوتے ہیں۔ ’’سنٹرل بینک‘‘ یا ملک کے ’’اسٹیٹ بینک‘‘ کو سمجھنے سے پہلے ایک ملک کی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ملک کے اندر دو قسم کی معاشی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ ایک کو fiscal اور دوسرے کو monetary policy کہتے ہیں۔ fiscal policy پر گورنمنٹ کا کنٹرول ہوتا ہے جیسے ٹیکس لگانا وغیرہ جبکہ monetary policy پر’’ سنٹرل بینک‘‘ جس کو ملک میں ’’اسٹیٹ بینک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کنڑول کرتا ہے۔ monetary policy میں بنیادی چیز پیسوں کا بہاؤ (flow) کو مارکیٹ کے اندر بیلنس رکھنا اور اسکے مطابق انفلیشن ریٹ (مختصر الفاظ میں اشیاء کی قیمتوں کا اوپر نیچے ہونے کو’’ انفلیشن‘‘ کہا جاتا ہے) اور سود کی قیمت کا مختص کرنا مثلآ اگر پیسوں کا بہاؤ مارکیٹ میں زیادہ ہو جائے یعنی حکومت وقت ملک میں موجود وسائل سے زیادہ پیسے print کرے جس کی وجہ سے پیسوں کا بہاؤ مارکیٹ کے اندر زیادہ ہوجائے گا اور پیسوں کی قدر میں کمی آجائے گی اور اشیاء کی قیمتیں اوپر چلی جائیں گی۔ اسکو ’’انفلیشن‘‘ کہتے ہیں اور اسکو معشیت (economics) میں (demand and supply theory کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کہ جب ایک چیز کی مانگ demand میں اضافہ ہو جاتا ہے تو اسکی قیمت value بڑھ جاتی ہے، اِسی طرح اگر مارکیٹ میں ایک چیز کی بہاؤ supply یا مقدر زیادہ ہو جائے تو اسکی قدر value میں کمی آجاتی ہے)۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مارکیٹ کے اندر پیسوں کا بہاؤ بڑھتا کیوں ہے؟ یا پھر حکومت زیادہ پیسے کیوں نہیں پرنٹ(چھاپ سکتی) کرتی ؟ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ 1971 کے بعد سے پیسوں کی حقیقت سوائے کاغذ کے اور کچھ نہیں اسکے پیچھے کوئی سونا تیل وغیرہ نہیں تھا۔ چونکہ صرف ایک یقین ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ یہ کاغذ مارکیٹ میں قابلِ قبول ہے اسلئے اس کی لین دین قابلِ قبول تصور کی جاتی ہے۔ اگر حکومت وقت اپنے ملک میں موجود وسائل سے زیادہ پیسہ چھاپے گی تو پیسوں کی قدر میں کمی جائے گی یعنی پیسے زیادہ ہونگے اور اشیاء کم جسکی وجہ سے ریکارڈ مہنگائی ہوجائے گی۔ اسلئے ’’سینٹرل بینک‘‘ اس پوائنٹ کو مدنظر رکھتی ہے۔
اب ہوا یوں کہ امریکہ نے پہلے سے ہی بہت سارے ممالک اور خاص کر یورپ اور سعودی عرب سے یہ معاہدات کئے ہیں کہ آپ لوگ تجارت اور خاص کر تیل کی فروخت مکمل امریکی ڈالر میں کریں گے۔ اب سعودی عرب پہلے تیل کو ’’امریکی ڈالر‘‘ میں امریکہ کو فروخت کرتا ہے جس کے بعد امریکہ باقی دنیا کو فروخت کرتا ہے اسکے بدلے میں امریکہ اور سعودی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے کہ تیل ’’امریکی ڈالر‘‘ میں فروخت کرنا مگر بدلے میں ’’امریکی ڈالر‘‘ کا سعودی حکومت کے کرنسی کے درمیان زیادہ فرق نہیں آنا چاہیے اور اس طرح عالمی مارکیٹ کے اندر امریکی سامراج کی بالادستی ظلم اور جھوٹ کے ساتھ قائم ہے اور تجارت تیل کی امریکی ڈالر میں فروخت کی وجہ سے امریکی ڈالر کی مانگ عالمی مارکیٹ میں بڑھ جاتی ہے اور ڈالر اوپر جانے لگتا ہے۔ یعنی ’’ڈالر‘‘ کی طلب demand میں اضافہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہر ملک ’’ڈالر‘‘ کو ذخیرہ کرنا چاہے گا یا اپنی ایکسپورٹ export بڑھائے گا کیونکہ جس ملک کے پاس ڈالر زیادہ ہوگا اتنا اس ملک کی کرنسی مضبوط ہوگی۔ یا export بڑھنے سے زیادہ ڈالر ملک کے اندر فالو کرے گا کیونکہ عالمی مارکیٹ میں ’’ڈالر‘‘ بہت چلتا ہے۔ اِس طرح امریکی ڈالر ’’عالمی کرنسی‘‘ بن گیا۔
جب کوئی ملک بجٹ پیش کرتا ہے تو اگر بجٹ خسارے میں ہو تو وہ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت قرض لیتی ہے۔ لیکن یہاں پر ساتھ میں یہ سوال بھی بنتا ہے کہ بجٹ خسارے میں کیوں آتا ہے۔ ایک ملک کا بجٹ دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ Government earning یعنی وہ پیسے جو حکومتِ وقت کے پاس آتے ہیں جیسے ٹیکسوں کی صورت میں یا دوسرے ذرائع سے یا ایک بڑا ذریعہ جسکو ہم foreign remittance کہتے ہیں۔ جس میں بیرونِ ملک میں موجود لوگ اپنے ملک کو پیسے ’’ڈالر‘‘ کی شکل میں منتقل کرتے ہیں اسکو foreign remittance کہتے ہیں۔ یہ پیسے حکومتی خزانے میں نہیں جاتے بلکہ وہ لوگ اپنے فیملی وغیرہ کے لئے بھیجتے ہیں۔ لیکن بڑا فائدہ حکومت کو پہنچتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس ’’ڈالر‘‘ کا ذخیرہ بڑھ جاتا ہے۔
دوسرا اہم حصہ Government expenditure حکومت کے اخراجات۔ اگر حکومت کے اخراجات کمانے سے زیادہ ہوں تو بجٹ خسارے میں رہتا ہے۔ جیسے عام طور سے ترقی پذیر ممالک جو سرمایہ داروں، سول ملٹری اسٹبلشمنٹ اور بدنظمی کرپشن وغیرہ کی وجہ سے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ اسکے ساتھ trade deficit جسکو ہم ’’تجارتی خسارہ‘‘ بھی کہتے ہیں جب import زیادہ ہو جائے export سے۔ تو ان تمام خساروں کو پورا کرنے کے لیے حکومت قرض لیتی ہے اور یہ قرض ملک میں موجود کرپٹ نظام میں سرمایہ دار جاگیردار اپنے جیبیں بھرنے کے لیے جان بوجھ کر ان عوام پر قرض کی شکل میں غلامی کے نئے زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔ حکومت یہ قرض سنٹرل بینک (اس ملک کی اسٹیٹ بینک)، مقامی بینک اور IMF سے مختلف اور سخت شرائط کے بعد لی جاتی ہے ۔ اِس طرح وہ ملک IMF کی جکڑ بندی میں ہمیشہ کے لئے آجاتا ہے۔
جب IMF کسی غریب ملک کو قرض دیتا ہے تو ان پر سخت شرائط لاگو کرتا ہے جیسے تیل، بجلی اور ٹیکسوں میں اضافے، ان شرائط کا مقصد کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی، تیل بجلی اور ٹیکسوں میں اضافے سے ملنے والی تمام رقم IMF کی قرض اتارنے میں خرچ کی جائے گی ((یعنی ہمارے ملک کے اسٹبلشمنٹ، سیاست دان، سرمایہ دار، جاگیردار سارا بوجھ عوام پر ڈال کر IMF کی طرف سے ملنے والی تمام رقم فضول خرچیوں، کرپشن، جیبوں کو گرم کرنا اور بیرون ملک منتقل کرنا وغیرہ کی شکل میں لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں) ۔ کیونکہ IMF کو اپنا قرض واپس بھی تو لینا ہے۔ IMF تب قرض دیتی ہے جب حکومت اس کو یہ یقین دلائے کہ آپ کا پیسہ ان ذرائع سے واپس آسکتا ہے۔ یہ ذرائع اور شرائطIMF حکومت کو بتائے گا۔ اگر حکومت اور IMF ان شرائط پر راضی ہوئے تو ان شرائط سے ملنے والی تمام رقمIMF کی قرض اور سود کی ادائیگی میں استعمال ہوگی اس طرح پوری قوم کوIMF یا ’’بین الاقوامی سامراج‘‘ کی غلامی میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ظاہر ہے حکومت میں بیٹھے ظالم لوگوں کو اپنے جیبیں بھرنے کا مقصد ہوتا ہے۔ چاہے عوام پر ظلم کا بازار گرم کیوں نہ ہو۔ان قرض کو سود سمیت واپس کرنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بینک یا IMF قرض کیسے دیتا ہے؟ بینک صرف کچھ digits enter کر کے نئے پیسے generat کر دیتے ہیں۔ چاہے یہ مقامی بینک ہوں سنٹرل بینک ہو یا IMF وہ صرف حکومت کے قطعے میں credit درج کردیتا ہے کہ اب حکومت کو ہم نے اتنے پیسے منتقل کئے جب کہ حقیقت میں صرف کچھ digits منتقل ہو جاتے ہیں پھر حکومت ان digits کے عوض نہ صرف مزید پیسے پرنٹ کرتے ہیں بلکہ وہی digits پر ایک ملک اپنے ملکی یا انٹرنیشنل سطح پر منتقلی اور تجارت کر سکتا ہے۔ اس طرح مزید پیسوں کی پرنٹنگ کی وجہ سے ملک کے اندر پیسوں کی بہاؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں اور اوپر چلی جاتی ہے (demand and supply theory) اور اس طرح غریب لوگوں پر مہنگائی کی نئی لہر آجاتی ہے۔ اگلے سال چونکہ حکومت دوبارہ خسارے میں رہتی ہے تو حکومت مزید قرض لیتی ہے جن کا بڑا حصہ پچھلے سود اور قرضوں کی ادائیگی میں لگ جاتا ہے۔ چونکہ پیسوں کے پیچھے کوئی حقیقی دولت موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی حکومت کو نئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کو مجبوراً بینکوں سے قرض لینا ہوگا کیونکہ جب تک بینک نئے digits create نہیں کرتے تب تک نئے پیسے generat نہیں ہوسکتے۔ اس طرح دوبارہ مارکیٹ کے اندر پیسوں کی بہاؤ بڑھنے کی وجہ سے اور مہنگائی آجاتی ہے یہ سب فرسودہ اور دو نمبر لوٹ کھسوٹ کا نظام بینک عالمی سرمایہ دار مقامی سرمایہ دار مل کر عوام کو لوٹتے رہتے ہیں۔
’’اسٹیٹ بینک‘‘ یا کسی بھی ملک کا ’’سینٹرل بینک‘‘ ایک خودمختار ادرہ ہوتا ہے جس پر حکومت وقت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ حکومت وقت اسے پوچھ گچھ نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کا Audit ہو سکتا ہے۔ کیپیٹلزم (ہمارے ملک میں بھی) کے اندر ایک عجیب و غریب نظام ہے جہاں دو حکومتیں معشیت کو کنڑول کرتی ہے ایک طرف حکومت جو fiscal policy کو اپنے کنڑول میں رکھتی ہے تو دوسری طرف جو سرمایہ دار بینکوں کی صورت میں بیٹھے ہوتے ہیں ایک دوسرے نظام سے کنڑول کرتے ہیں جس کو monetary policy کہاں جاتا ہے۔ دونوں جگہ پر سرمایہ دار اپنے جیبیں بھرنے اور عوام کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آسان الفاظ میں کسی بھی ملک میں موجود سرمایہ داری نظام سوائے عوام کو جھوٹی امیدیں دینا اور منہگائی کرپشن وغیرہ کی صورت میں لوٹ کھسوٹ کرنے کے علاؤہ کچھ نہیں۔اگر کوئی حکمراں اپنے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اُسے ’’سیکٹر ایگری کلچر‘‘ Agriculture sector پر توجہ دینی ہوگی اور اپنے ’’ایکسپورٹ‘‘ export کو بڑھانا ہوگا۔ موجودہ وقت میں چین، روس اور ایران، امریکہ اور امریکی ڈالر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ کیونکہ یہ ممالک اپنے کرنسی اور اشیاء کے تبادلے کی تجارت پر یقین رکھتے ہیں۔
اگلا مضمون ان شاء اللہ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ ّآئی ایم ایفIMF کے بارے میں ہوگا۔
[email protected]