معرکہ روح و بدن اور سید السادات ؒ فہم و فراست

ڈاکٹر عریف جامعی

حیاتیاتی مادے میں ربّ ِ تعالیٰ کی طرف سے جب روح پھونکی جاتی ہے، تو ایک ایسی انسانی شخصیت منصہ شہود میں آجاتی ہے جس کے اندر ہر اعتبار سے امکانات کی ایک اتھاہ کائنات پوشیدہ ہوتی ہے۔ روح اور بدن کے اتصال سے معرض وجود میں آنے والے انسان کے لئے اس طرح عمل پیہم کی خاطر پوری کائنات کو کھول کے رکھ دیا جاتا ہے۔ فکر و عمل کی آزادی انسان کو کچھ اس طرح تحریک عطا کرتی ہے کہ وہ کائنات میں پھیلی ہوئی اشیاء میں تصرف کرنا شروع کرتا ہے اور فکر و عمل، ہر دو اعتبار سے نئے نتائج اخذ کرنا شروع کرتا ہے۔
تاہم دائرہ شہود میں انسان سرگرم عمل ہوکر جبھی نت نئی دریافتوں سے شاد کام ہوتا ہے جب اس کی روح کو اس کے بدن کے توسط سے دنیائے رنگ و بو پر اثر انداز ہونے دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا ایک حصہ ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خالی مٹی کا پتلا (یعنی انسانی جسم) بذات خود (یعنی روح کی تحریک کے بغیر) کوئی کام انجام نہیں دے سکتا۔ تاہم فرشتوں اور جنوں کے متعلق مروجہ تصور کے مطابق کبھی کبھی ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ شاید خدا کی یہ مخلوقات کسی بھی قاعدے قانون کے بغیر مشہود کائنات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو ملائکہ اور جنات خدا کے اذن کے بغیر اپنے محل (یعنی دائرہ غیب جو انسان کے لئے غیر مرئی ہے) سے باہر نکل کر کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتے، اور جب وہ رب تعالی کی طرف سے اجازت پاکر محسوس دنیا پر اثر انداز ہوتے بھی ہیں تو وہ انسانوں کے توسط سے ہی کوئی کام انجام دیتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہم قرآن اور سنت ثابتہ میں دیکھ سکتے ہیں۔
الغرض روح اور بدن کے اتصال سے ہی دنیا کی رنگا رنگی اور بوقلمونی جاری و ساری رہتی ہے۔ اس اتصال، ہم آہنگی اور یکسوئی کے بغیر انسان کوئی خاطر خواہ کام انجام نہیں دے سکتا۔ تاہم انسانی شخصیت کی کارگزاری میں روح کو ایک خاص امتیاز حاصل رہتا ہے ،جس کے ذریعے وہ جسم کو تحریک دیتی رہتی ہے، جس سے حضرت انسان آن، بان اور شان کے ساتھ زندگی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جسم کا خمیر زمین کے اجزاء سے ہی ترتیب پاتا ہے، اس لئے اس کا لگاو زمین کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ اس کے برعکس روح تجلی رب کا شاخسانہ ہوتی ہے، اس لئے اعلی حقائق اور لطیف تصورات روح کے مطمح نظر ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ اعلی اقدار کی معرفت کے بعد ان پر عمل پیرا ہوجانے سے ہی انسان کو عزت، بزرگی اور کمال نصیب ہوتا ہے، اس لئے اس کا ایک بلیغ اشارہ قرآن نے اس طرح دیا ہے: ’’جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔‘‘(فاطر: 10)
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں سب سے پہلے کلمہ طیبہ (یعنی کلمہ توحید) ہی قابل قبول ہوجاتا ہے۔ دراصل کلمہ طیبہ انسان کو ایک قوی نظریہ فراہم کرتا ہے ،جسے قرآن میں ایک اور جگہ پر ’’العروہ الوثقی، یعنی مضبوط سہارا‘‘ (البقرہ: 256) کہا گیا ہے۔ تاہم صالح نظریہ کا شجر عمل صالح سے ہی برگ و بار لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ ابراہیم میں اس کو ایک ایسا ’’پاک درخت ‘‘کہا گیا ہے جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ یعنی قلب انسانی میں ایمان کا بیج پڑتے ہی عمل صالح کا شجر نمودار ہوتا ہے، جس کے دوام کا دارومدار حق کی مسلسل یاددہانی اور دامن صبر کو ہر دم ہاتھ میں تھامے رہنے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں انسانی روح جسم (نفس) انسانی کی لگام اپنے ہاتھ میں لیتی ہے اور انسان رب تعالی کے اذن سے ان رفعتوں سے مستفید ہوتا ہے، جہاں تک اس کی رسائی بالفعل ممکن ہے۔ اس طرح روح اور بدن کی حقیقی ہم آہنگی سے ہی انسانی شخصیت کو اصلی ترفع حاصل ہوسکتا ہے۔
روح اور بدن کی یہ معرکہ آرائی اگرچہ انسان کی پوری زندگی جاری رہتی ہے، لیکن نوجوانی کے دور میں یہ کشمکش جوبن پر ہوتی ہے۔ اس وقت ذرا سی کوتاہی انسان کو اسفل السافلین میں گراسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوانی کے دور کو انسانی زندگی کا متاع گراں قرار دیا ہے، جس کے بارے میں قیامت میں الگ سے باز پرس ہوگی۔(ترمذی) اصحاب کہف نے بھی جوانی میں ہی نظام شرک سے روگردانی کرکے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لئے غار میں پناہ لیکر فرزندانِ توحید کے لئے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے بھی جوان ہوتے ہی قوم کے معبودان باطل کو للکارنا شروع کیا۔
ظاہر ہے کہ میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اعلیٰ پایہ کے عالم اور مبلغ کی حیثیت سے جو انقلاب عظیم وادئ گلپوش میں برپا کیا، اس میں آپ نے یہاں کی آبادی کے ہر طبقے کے لئے رشد و ہدایت کا انتظام کیا۔ جہاں آپ نے یہاں کے بزرگوں کی تعلیم تربیت کے لئے روایتی انداز کو اپناتے ہوئے انہیں ’’ذکر و فکر‘‘ کا عادی بنایا، وہیں آپ نے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ ؒنے عمل کے ساتھ ساتھ فکری میدان میں بھی جوانوں کو اپنے خاص انداز تبلیغ و توعیظ کے ذریعے مہمیز دی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ترتیب شدہ ’’اوراد فتحیہ‘‘، جسے توحید کی گاسپیل کہا جاسکتا ہے، کشمیر میں اتنی مقبول ہوئی کہ یہ اوراد آج تک کشمیر کی مساجد میں بالجہر پڑھی جاتی ہے۔
تاہم راہ سلوک (تصوف) کو خانقاہوں سے باہر ترویج دینے کے لئے جہاں آپ نے کئی رسالے قلمبند کئے، وہیں ’’رسالہ فتوتیہ‘‘ لکھ کر روحانیت کے عملی پہلو کو معاشرتی خدمت (سوشل ورک) کے طور پر متعارف کرایا۔ اس رسالے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تصور ’’فتوت‘‘ ایک سالک کے سامنے روحانیت کو ایک ایسے قالب میں پیش کرتا ہے جس میں شریعت اور طریقت کا ایک بہترین امتزاج ہوتا ہے۔ سلوک کا یہ طریقہ اگرچہ سید نجم الدین کبریؒ سے ہی چلا آرہا تھا، لیکن میر سید علی ہمدانی ؒ نے ’’رسالہ فتوتیہ‘‘ کے ذریعے اسے ایک تحریک میں تبدیل کیا۔ سید نے اس سے کشمیر کے ثقافتی اور معاشرتی دائروں جو نتائج حاصل کیے، اس کی وجہ سے اس کو ’’متحرک روحانیت‘‘(اسپرچویلٹی ان ایکشن) کہہ سکتے ہیں۔
’’رسالہ فتوتیہ‘‘ میں سید علی ہمدانی ؒ نے ’’مقام فتوت‘‘ کے تین درجے بیان فرمائے ہیں۔ یہ درجے سید ؒ کے مطابق سخا، صفا اور وفا ہیں۔ ظاہر ہے کہ وفا سے ایک طرف عمودی طور پر بندے کا رشتہ ربّ ِ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے، تو دوسری طرف متوازی طور پر وہ اپنے آپ کو بندگان خدا کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ تاہم خدا کے بندوں کے ساتھ جڑنے کے لئے اسے سخاوت اور ایثار کو اپنانا پڑتا ہے۔ اسے اپنے ساتھ ساتھ، بلکہ کئی مواقع پر اپنے سے زیادہ، دوسروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وفا اور سخا کی دونوں صفات کا حامل وہی شخص بن سکتا ہے، جو ساتھ ساتھ، بلکہ سب سے پہلے، روح اور بدن دونوں کے لئے مقام صفا پر فائز ہوجائے۔ یہاں پر سالک کی نظر تصوف کے بنیادی اصول یعنی ’’خذ ما صفا و دع ما کدر، یعنی صفا کو اختیار کرنا اور روحانی آلودگی سے دوری اختیار کرنا‘‘ پر ہونا لازمی ہے۔ ’’مقام فتوت‘‘ کے آئین کے طور پر ’’اہل فتوت‘‘ توبہ، احتساب، موافقت دل و زبان، اقتدائے بزرگان اور احتزاز از خواہشات نفس کو بحیثیت شرائط قبول کرتے ہیں اور اپناتے ہیں۔
میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہوئے ’’اہل فتوت ‘‘کی مندرجہ ذیل صفات بیان کرتے ہوئے اس پورے سلسلے کو ایک منظم معاشرتی خدمت (سوشل ورک) کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اس طرح ’’اہل فتوت ‘‘کی امتیازی خصوصیات سید نے اس طرح بیان فرمائی ہیں:
1۔ قدرت اور طاقت کے باوجود معاف کرنا،2۔ غصے کے وقت بردباری،3۔ دشمن کی خیرخواہی،4۔ احتیاج کے باوجود ایثار کرنا۔
ظاہر ہے کہ یہ چاروں سنہرے اصول ’’اہل فتوت‘‘ کو معاشرے کے لئے ایک قیمتی اثاثہ بناتے ہیں، جنہیں قرآن نے ’’عباد الرحمن، مہربان رب کے بندے‘‘ کا خطاب دیا ہوا ہے۔ (سورہ الفرقان) اس طرح ’’اہل فتوت‘‘ اعلی اخلاق کا نمونہ بن جاتے ہیں، جو بندگان خدا کے لئے رافت و رحمت کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ خدا کے یہ بندگان خاص ہر آن انسانیت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور خلق خدا کو ’’خدا کا کنبہ‘‘ تصور کرکے اس کی مشکلات کو دور کرتے رہتے ہیں۔
میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق ایسے صفات سے متصف افراد کو ’’اخی، یعنی بھائی ‘‘کہا جاتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کا دراصل ’’بھائی‘‘ یعنی ’’ہمدرد‘‘ بنا رہتا ہے۔ انہی ’’بھائیوں‘‘ کی بدولت، جن کی درجہ بندی عام، خاص اور اخص کے طور پر کی گئی ہے، معاشرہ ہر اعتبار سے امن و سلامتی کا ایک نمونہ بن جاتا ہے۔ ایسے ہی افراد تیار کرکے میر سید علی ہمدانی ؒ نے کشمیر کو توحید پر مبنی ایک مثالی معاشرے میں تبدیل کیا۔
(نوٹ:کشمیر عظمٰی کی طرف سے دی گئی اطلاع/ہدایت کے مطابق مضمون کو 1500 الفاظ تک محدود رکھا گیا ہے)
(رابطہ۔9858471965)
[email protected]