معذور افراد کو حوصلہ دیجئے،ہمدردی نہیں

شمس تمنا،دہلی
ہمارے ملک ہندوستان میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہیں۔ ایسے بچوں کو خصوصی علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی نقطہ نظر سے ان کے لیے خصوصی اسکولوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ درحقیقت حکومت معذور بچوں کی تعلیم اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ لیکن ملک میں اب بھی لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جسمانی معذوری کی وجہ سے اسکولی تعلیم سے محروم ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ 2009-10میں ملک میں معذور، قبائلی اور دلت بچوں کو جامع تعلیم فراہم کرنے کی اسکیم نافذ کی گئی تھی۔ اس میں غیر معمولی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر اس کا نفاذ بہت کم نظر آتا ہے۔ خاص طور پر دور دراز اور دیہی علاقوں کے معذور بچے ایسی ا سکیموں سے محروم ہی رہتے ہیں۔حالانکہ ہمارے ملک میں معذوروں کے فائدے کے لیے بہت سے قوانین اور ایکٹ بنائے گئے ہیں جیسے کہ معذور افراد کے حقوق ایکٹ، 1995، معذور افراد کے حقوق کے قانون، 1999 کے تحت نیشنل ٹرسٹ ایکٹ، 1992، ہندوستانی بحالی ایکٹ،معذور افراد کے حقوق اور ذہنی صحت ایکٹ، 1987 ذہنی طور پر معذور افراد کے لیے اہم ہے۔
بلاشبہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور بچے کی پیدائش کسی بھی والدین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ تعلیم اور بیداری کی کمی کی وجہ سے متوسط اور غریب گھرانوں میں توپیدا ہونے والے ایسے بچوں کو لعنت سمجھا جاتا ہے۔ انہیں زیادہ تر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ والدین خود ایسے بچوں کی پرورش سے منہ موڑ لیتے ہیں اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں جو کہ انتہائی شرم کی بات ہے۔ کئی بار ایسے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں کہ ایسے بچوں کو گھر اور باہر جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اپنی بات کسی کے ساتھ شیئر کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ تاہم، ایسے بچے شاندار صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ جس کی صرف نشاندہی اور تطہیر کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بہت سے کھلاڑی، سائنسدان اور سماجی شعبے سے وابستہ لوگ ایسے ہیں جو پیدائشی طور پر معذور ہوئے لیکن انہوں نے اس کمی کو کبھی اپنی صلاحیتوں پر حاوی نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ دنیا کے لیے مشعل راہ بنے۔ مشہور سائنسداں اسٹیفن ہاکنس اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔صرف وہی نہیں،معاشرے کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں معذوروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوا ہو۔ جب بھی موقع ملا ہے دو قدم آگے بڑھ کر نتائج دیے ہیں۔کانگریس کے بااثر لیڈر ایس جے پال ریڈی کو کون بھول سکتا ہے۔ جو معذور ہونے کے باوجود ہندوستان کی سیاست میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے۔اس سے ثابت ہوا کہ معذور انسان بھی قابل ہوتے ہیں، بس ہمیں ان کے بارے میں اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر قدرت کسی انسان سے کوئی صلاحیت چھین لیتی ہے تو بدلے میں اتنا دیتی ہے کہ عام طور پر کسی قابل آدمی کو بھی وہ مات دے سکتے ہیں۔
درحقیقت معذوری (دیویانگ) ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کا نام آتے ہی ہم اس شخص کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف احساسات بیدار ہونے لگتے ہیں۔ یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ان کی جسمانی معذوری کو معاشرے میں تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی مواقع پر ان کی نااہلی کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کے حوصلے پر حملہ کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے دراصل نظریاتی طور پر معذور ہوتے ہیں جو معذوروں کی صلاحیتوں کے سامنے خود کو پسماندہ پاتے ہیں۔ معاشرے کو ان کے بارے میں اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی بہت سے ایسے معذور ہمارے اردگرد ملیں گے جنہوں نے اپنی قابلیت سے معذوری کو شکست دی ہے۔ جو اپنی معذوری کو پیچھے چھوڑ کر کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے ہیں۔ جنہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں، رحم کی بھیک کے نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جسمانی معذوری ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارا اولین فرض ہے کہ ان کا مذاق اڑا کر ان کی زندگی کو لعنت نہ بنائیں اور نہ ہی ہمدردی کا اظہار کرکے ہم انہیں جذبات کے بوجھ تلے دبنے پر مجبور کریںبلکہ ہمیں ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔
(مصنف ڈی ڈی نیوز دہلی میں نیوز پروڈیوسر ہیں)
(رابطہ : 9350461877)
[email protected]