مطالعہ،نکات ،جہات ،اشارات۔۔۔ ایک تعارف

غاز ی سہیل خان،سرینگر

 

مطالعہ ،نکات ،جہات ،اشارات اس نام کی کتاب چند دن سے زیر مطالعہ تھی ۔جس کو شمشاد حُسین فلاحی اور عرفان وحید نے بڑی ہی عرق ریزی سے دونوں صاحبان نے ترتیب دیا ہے ۔میرے نزدیک یہ کتاب طلبہ کے لئے مطالعہ کے حوالے سے ایک گائیڈ بُک کی حیثیت رکھتی ہے ۔کتاب کوپڑھنے کے دورآن انسان کے اندر مطالعہ کے تئیں ایک شوق و جذبہ اُبھرتا قاری محسوس کرتاہے ۔انسان یہی چاہتا ہے کب اس کو ختم کر کے میں منظم طریقے سے مطالعہ کرنا شروع کر دوں ۔ اصل میں اس کتاب کے مضامین 2002میں ماہنامہ’’ رفیق منزل ‘‘کے خصوصی شمارے کے نام سے شایع ہوئے ہیں۔ جس کو آج کتابی شکل میں شایع کیا گیا ہے دراصل رفیق منزل اسلامک اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن (SIO)کا ترجمان ہے اور یہ تنظیم نوجوانوں کے اندر ہی کام کرتی ہے، اس کتاب کا  مقصد بھی نوجوانوں کے اندر ہی مطالعہ کا شوق پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے سکنے کے قابل ہو جائیں ۔ کتاب کے مرتبین میں شمشادحُسین فلاحی تب یعنی 2002میں رفیق منزل کے مدیر تھے آپ مترجم اور بہترین مصنف بھی ہیں ،فلاحی صاحب آج ماہنامہ حجاب اسلامی کے مالک اور مدیر ہیں ۔وہیں عرفان وحید معروف ماہنامہ’’ زندگی نو‘‘ اور ہفتہ روزہ ’’دعوت نئی دہلی ‘‘کے ساتھ وابستہ ہیں ،آپ نے اُردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے آپ مشہور آن لائن پورٹل مضامین ڈاٹ کام کے بانی رُکن بھی ہیں ۔ کتاب کے عرض مرتب میں عرفان وحید لکھتے ہیں کہ ’’دسمبر 2002میں ماہ نامہ’’ رفیق منزل ‘‘نے ’’مطالعہ نمبر‘‘کے نام سے اپنا ایک خصوصی شمارہ شایع کیا تھا۔یہ خصوصی شمارہ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھااور ملک و بیرون ملک کے قارئین نے اِسے بہت سراہا۔ادھر ایک طویل عرصے سے قارئین کا اصرار تھا کہ اس شمارے کی افادیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں شایع کیا جانا چاہیے ۔زیر نظر مجموعہ مظامین اسی دیرینہ ضرورت کی تکمیل کی ایک کوشش ہے ،ہر چند کہ ان مظامین کو لکھے ہوئے تقریباً دو دہائی کا عرصے گزر چُکا ہے ،تاہم مضامین کی تازگی ،اس میں پیش کردہ افکار و خیالات کی ندرت ،تخلیقیت اور افادیت آج بھی اسی طرح برقرارجس طرح پہلے روز تھی ۔‘‘

مذکورہ کتاب میں شامل تحاریر کو بیس سال پہلے لکھا گیا ہے تاہم دورآن مطالعہ قاری کہیں پہ بھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ یہ بیس سال پہلے کی تحاریر ہیں ۔آج بھی اُسی طرح اس کتاب میں وہ تازگی اور نیا پن محسوس ہوتا ہے جو بیس سال پہلے محسوس کیا جا سکتا تھا۔کتاب میں تکنیکی انداز اپناتے ہوئے ،مختلف عنوان اور اُن کے ذیلی عنواین کی صورت پیش کیا گیا ہے ۔جس کو پڑھنے کے دورآن قاری اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اور کتاب بھی قاری کو اپنے ساتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے رہتی ہے ۔مضامین میں تسلسل کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ابتدایہ کے بعد نو بڑے عناوین میں کتاب کو ترتیب کیا گیا ہے پہلا عنوان مطالعہ :ضرورت اہمیت ،جہات ،۲۔مطالعہ اسلامیات ۳:۔مختلف علوم ۴:۔مطالعہ ادب ۵:۔شخصیت کا ارتقا ۶:۔رسیات کا مطالعہ۷:۔ تحریک اور دعوت ۹:۔ مطالعے کے مآخذ۹:۔ متفرقات ۔ ان بڑے نو عنوانات کے بعد ذیلی عناوین کے تحت مضامین پیش کیے گئے ہیں ۔شمشاد حُسین فلاحی نے مطالعہ ضرورت و اہمیت عنوان کے تحت مولانا رومی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’تو یہ جانتا ہے کہ فلاں چیز جائز ہے اور فلاں ناجائز ،مگر اس بات پر بھی اچھی طرح غور و فکر کر کہ تو خود جائز ہے یا ناجائز ؟ ہر سودے کی قیمت کا تجھے علم ہے لیکن تو اگر اپنی قیمت نہیں جانتا تو احمق ہے ۔تمام علم و فضل کی روح صرف اور صرف یہ ہے کہ تم جان جائو کہ کل قیامت کے دن کیا ہوگا۔‘‘ص43۔یعنی اگر آپ اپنے آپ کو پہنچانا چاہتے ہیں کہ میں کون ہوں میرا مقصدِ وجود کیا ہے اور کل قیامت کے دن مجھے اللہ کے دربار میں کھڑا ہونا ہے اُس کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہیے اور وہ تیاری ہم پڑھ اور جان کے ہی کر سکتے ہیں ۔مطالعہ کی اہمیت وغیرہ کے بعد کچھ تکنیکی چیزیں پیش کی گئی ہیں ۔مثلاً مطالعہ میں تسلسل کیسے قائم کیا جائے گا ،مطالعہ کی عادت کیسے ڈالی جائے اسی طرح سے مطالعہ کی رفتار کو کیسے بڑھایا جائے گا اور کیا یہ ممکن بھی ہے یا نہیں ۔سی’’د شُجاعت حُسینی‘‘ اپنے ایک مضمون میں مطالعہ کی رفتار کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ماہرین کے مطابق 500تا 700؍الفاظ فی منٹ مطالعے کی رفتار کہلاتی ہے ۔لیکن عموماً طلبہ برادری میں رفتار کی شرح 250تا 300الفاظ فی منٹ پائی جاتی ہے ۔کچھ لوگ 1000؍یا اس سے بھی زائد الفاظ فی منٹ کی رفتار سے مطالعہ کر لیتے ہیں ۔یہ صلاحیت مسلسل مطالعے کی عادت اور چند دیگر نکات کو ملحوظ رکھ کر پروان چڑھائی جا سکتی ہے ۔ص 59۔مطالعہ روح کی غذا ہے جس طرح سے انسان کو اپنے مادی وجود کی بقا کے لئے مادی غذا کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح ایک انسان کو اپنی روح کی بقا کے لئے روحانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور یہ روحانی غذا انسان کو مطالعہ سے ہی ملتی ہے تاہم اس غذا میں ہمیں قرآن کو اولیت دینی چاہیے ۔مطالعہ اسلامیات کچھ رہ نما خطوط عنوان کے تحت ایک جگہ’’ ڈاکٹر محی الدین غازی‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’اسلامیات میں مطالعہ قرآن کی اہمیت بالکل جدا گانہ ہے وہی پورے اسلامی لٹریچر کا اصل محور اور اساس ہے اور پورا اسلامی لٹریچر اسی کے نور کا انعکاس ہے ۔دراصل اسی کا مطالعہ مقصود و مطلوب ہے ۔باقی پورا لٹریچر اس کا معاون ہے ۔اس حقیقت کا اعادہ کرتے رہنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ بعض دفعہ اسلامیات کا تو خوب وسیع مطالعہ ہو جاتا ہے لیکن قرآن مجید اور اس سے علمی و فکری وابستگی نہیں ہو پاتی ہے ۔انجام کار پورا مطالعہ بے محور اور بے اساس رہ جاتا ہے‘‘ ۔ص 85۔چونکہ انسان جب اخلاص نیت کے ساتھ کوئی علم حاصل کرتا ہے تو اُس کو مصائب و مشکلات اور تنگیوں کا سامنا لازماً کرنا پڑتا ہے ۔انسان جب مطالعہ کا یہ کہتے ہوئے عزم کرتا ہے کہ میں اپنے آپ کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی بدلنا چاہوں گا تو اُس کو مشقتیں برادشت کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے ۔کوئی آرام طلب انسان مطالعہ نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے انسان کا سخت کوشش ہونا ضروری بلکہ لازم ہے ۔’’محمد عبداللہ جاوید‘‘ کا ایک مضمون بعنوان ’’طالب علم کے درکار صفات‘‘ میں وہ ’’علامہ یوسف القرضاوی حفظ اللہ‘‘ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’علم کی طلب میں بدن کو مشقت میں ڈالنا اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے مادی مشاغل اور سماجی تعلقات وغیرہ کو کم کر کے دل کو علم کے لئے فارغ اور یکسو کیا جائے ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ علم اپنا کچھ حصے تمہارے حوالے تبھی کرے گا جب تم اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کردو۔جب تم اپنے آپ کو تمام تر اس کے حوالے کر دو گے تب بھی اس بات کا خطرہ باقی رہیے گا کہ وہ اپنا کچھ حصہ تمھیں دے گا بھی یا نہیں ‘‘۔ص 196۔مذکورہ کتاب میں ایک اور مضمون’’ بعنوان تحریکی لٹریچر کا مطالعہ‘‘ جو کہ طلبہ کو تحریکی لٹریچر پڑھنے پر اُبھارتا ہے یہ مضمون متاثر کُن اور دلچسپ بھی،جس میں چند شخصیات کو ایک سوالنامہ کے ذریعے اُن کے جوابات کو اس کتاب کے ایک مضمون میں شامل کیا گیا ہے ۔’’عبدالجبار صدیقی ‘‘ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’میری نظر میں جو انسان تحریکی لٹریچر کا مطالعہ شروع کر تا ہے وہ عام نہیں خاص ہو جاتا ہے اس کو مقصد ِزندگی کی جستجو بے چین کر دیتی ہے ،وہ دنیا میں کچھ کرنے کا عزم اور تیاری شروع کر دیتا ہے ،اور یہ لٹریچر اس راہ میں اسے مسلسل توانائی فراہم کر تا ہے ۔میرے نزدیک عام قاری کے لئے ابتدا میں بہتر ہوگا کہ وہ شہادت حق ،سلامتی کا راستہ ،بنائو اور بگاڑ ،خطبات اور تفہیم القرآن سے اپنا مطالعہ شروع کرے اور پھر بتدریج دیگر کتابوں کی طرف بڑھے جس کا نصاب تحریک اسلامی کے ذریعے فراہم کیا جاتا رہا ہے ۔‘‘ص 262۔اسی سوالنامے کے ایک جواب میں ’’ زین العابدین منصوری‘‘ ایک جگہ طلبہ کو مطالعہ کی تحریک دیتے ہوے انتہائی سبق آموز انداز اپناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’پڑھنے کی مجھے ’لت ‘ رہی ہے ۔میں نے ہمیشہ ایک وقت کی روٹی پر ایک کتاب کو ترجیح دی ہے ۔میرے پاس خود اپنی لائبریری اتنی بڑی ہے جو میری حیثیت کے افراد کے پاس نہیں ہوتی ۔میں ہمیشہ اپنی دلچسپی کے موضوعات کا لٹریچر پڑھتا ہوں اس کے علاوہ جب کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں تو موضوع کی ضرورت کے مطابق مطالعہ کرتا ہوں ۔‘‘ ص 251۔اسی طرح سے آخری اوراق میں معروف شخصیات کا طریقہ مطالعہ کے عنوان چند مضامین پیش کیے گئے ہیں جس میں سے پہلے مولانا مودودیؒ ؒؒکا طریقہ پیش کیا گیا ہے اسی مضمون میں ایک جگہ پہ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ’’عام طور پر جب مجھے فرصت ہوتی ہے بیکار نہیں بیٹھتا یا پڑھتا ہوں یا لکھتا ہوں ۔کبھی بیماری میں مجبوراً لکھنے پڑھنے کا موقعہ نہ ملے تو میرے لئے وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ۔صرف عصر اور مغرب کے درمیان لکھنے اور پڑھنے کی عادت کبھی نہیں رہی اس کی وجہ صرف یہ رہی کہ اس وقت میں طبیعت کا رجحان اس طرف بالکل نہیں پاتا۔ــ‘‘ص 309۔اب آخر پر اسی کتاب میں سے ایک مغربی مفکر کا قول نقل کرتا ہوں جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’کچھ کتابیں محض چھکنے کے قابل ہوتی ہیں جب کہ بعض سیدھے نگل لینے کے قابل ہوتی ہیں ور بعض کتابیں اس لائق ہوتی ہیں کہ انہیں اچھی طرح چپا کر ہضم کر لیا جائے ۔‘‘

المختصر یہ کہ اگر اس کتاب کے ہر ایک مضمون پر بات کی جائے تو ایک اورکتاب کا وجود پانے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔بہتر یہی رہے گا آپ خوداس کتاب کا بغور مطالعہ کر کے سامان روح و جان حاصل کریں ۔کتاب کو انتہائی خوصورت انداز میں ترتیب دیا گیا ہے ۔کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے ۔قاری کتاب کے مطالعہ کے دوران اُکتا نہیں جاتا بلکہ ہر ایک مضمون میں کچھ نیا پڑھنے کو ملتا ہے اور ہر کوئی مضمون اپنے اندر ایک منفرد انداز اپنایے ہوئے ہے ، الفاظ اور اصطلاحیں آسان اور عام فہم استعمال میں لائی گئی ہیں جس سے طلبہ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی ایسا محسوس ہوتا ہے جان بوجھ کے سادہ اور عام فہم الفاظ اور اسلوب کو اپنایا گیا ہے تاکہ طلبہ کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آیے ۔وہیں کتاب میں چند خامیاں بھی محسوس ہوئی ہیں پہلے یہ کہ کتاب کا سائز اس سے چھوٹا ہونا چاہئے تاکہ کتاب کو ہاتھوں میں پکڑنے میں آسانی ہو تی ،وہیں کتاب میں نے اکثر مضامیں طلبہ کو زیادہ تر  غیر مسلم اور مغربی مصنفین کی کتابوں سے استفادے کی ترغیب دی گئی ہے حالاں کہ اُس میدان میں مسلمانوں نے بھی بہت کام کیا ہے ۔چند ایک جگہوں پہ مضامین میں تکرار بھی محسوس ہوئی جس کی مثال آپ صفحہ نمر 13اور 119پر دیکھ سکتے ہیں ۔اس سب کے باوجود کتاب انتہائی دلچسپ ہے لائق مطالعہ ہے خصوصاً جو مطالعہ سے دور ہیں ۔کتاب کا دیدہ زیب ٹائٹل اور سرورق وہیں کتاب کی پرنٹنگ بھی خوبصورت ہے ۔کتاب کی قیمت مناسب ہی معلوم ہوتی ہے ۔ مجموعی طور جو نوجوان مطالعہ سے دور ہوگئے ہیں یا اب مطالعہ میں دلچسپی نہیں رکھتے اُن کے لئے یہ کتاب انتہائی نفع بخش ثابت ہوگی ان شا ء اللہ ۔کتاب کو سرینگر میں کسی بھی اسلامی کتابوںکی دکان سے خرید سکتے ہیں ۔

رابطہ 9906664012

[email protected]>