مشہور گھریلو دستکاریاں دم توڑ نے لگیں، ہنز مندوں کی تعداد 50ہزار تک سمٹ گئی موروثی پیشہ ور افراد نے دوسرے پیشے اختیار کئے،سرکاری سکیمیں دستکاروں کو واپس راغب کرنے میں ناکام

 پرویز احمد

سرینگر //کشمیر کی گھریلو دست کاریوں کو فروغ دینے کیلئے جموں و کشمیر سرکار کی طرف سے شروع کی گئی ہرسکیم ناکام ہورہی ہے اور دست کار فاقہ کشی پر مجبور ہورہے ہیں۔ مختلف دست کاریوں سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکاری اسکیموں سے دستکاریوں سے جڑے تاجروں کو تو فائدہ ہورہا ہے لیکن دست کار کی مالی صورت میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے اور اس وجہ سے کاریگر موروثی کام بھی چھوڑ رہے ہیں۔موسمی اور جغرافیائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 700سال سے حضرت میر سید محمد علی ہمدانی ؒ نے جموں و کشمیر میں گھریلو دستکاریوں کو متعارف کرانے کیلئے ایران سے چند دست کاروں کو کشمیر لا کر وادی میں قالین بافی ، شال بافی، پیر معاشی اور نمدہ سازی کے علاوہ دیگر ہنروں کو متعارف کرایا تھا جو خراب موسمی صورتحال کے دوران عام لوگوں کی مالی وسائل کا واحد ذریعہ تھے لیکن مقامی تاجروں اور دستکاروں کی لاپرواہی اور خود غرضی کی وجہ سے یہ صنعت دم توڑ رہی ہے۔

 

 

محکمہ ہنڈی کرافٹس کے اعداد و شمار کے مطابق 1996میں جموں و کشمیر میں دست کاروں کی تعداد 3لاکھ سے زیادہ تھی جو اب کم ہوکر 50ہزار تک سکڑ گئی ہے ۔سال 2014کے تباہ کن سیلاب سے محکمہ ہنڈی کرافٹس کا سارا ریکارڈ ضائع ہوگیا اور سال 2014سے لیکر 31دسمبر 2022تک صرف 50ہزارافرادنے رجسٹریشن کرائی ہے جن میں 15ہزار 384منظور شدہ ہنر مند شال بافی سے جڑے ہیں جبکہ قالین بافوں کی تعداد سکڑ کر صرف 8103رہ گئی ہے۔ کشمیر میں کیرول اور چین سٹچ سے13ہزار 797،آری کام سے 4780، نمدہ بنانے والے 242افراد، خطم بند بنانے والے 106، پیپر ماشی کے 2036، فر اور لیتھر کام کرنے والے737، ساختہ 82، چین سٹچ216، ٹیپسٹری 221، تانبے پر کام کرنے والے 137، کانلی 19، مخصوص زیور بنانے والے 23، ووڈ کارونگ 399، زری کا کام کرنے والے 556، چاندی کا کام کرنے والے 10، قالین کیلئے تعلیم لکھنے والوں کی تعداد 8، ٹریسنگ کرنے والے 10، قالین کا رفو کرنے والے 4، ہاتھ سے کپڑے بننے والے3، فلیگری، چمڑے پر کام کرنے والے 3، مٹی کے برتن بنانے والوں میں 1، اور چٹائی بنانے والوں میں صرف ایک کاریگر کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔کشمیر کی گھریلو دستکاریوں کے بچائو کیلئے بنائی گئی تنظیم ’’ تحفظ‘‘ کے صدر نذیر احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ سرکار نے کئی سکیمں متعارف کرائی ہیں جن میں آرٹیزن کریڈٹ کارڈاور ڈی سی ایچ کی کمپنی جیسے سکیمیں بھی دستکاروں کو واپس اپنی ہنر کی جانب راغب کرنے میں ناکام رہی ہے‘‘۔

 

 

نذیر نے بتایا ’’ 90ہزار کے قرضہ سے دستکار کیا کرسکتے ہیں ، وہ خود الگ کام شروع کرے گا یا اپنے اہل خانہ کو روزی روڑی کھلائے گا‘‘۔نذیر احمد نے بتایا کہ سرکاری کی مختلف اسکیموں سے اگر چہ تاجروں کو فائدہ ہورہا ہے لیکن عام دستکار کی مالی حالت میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نذیر نے بتایا کہ آج بھی پیپر ماشی کرنے والا دستکار 100سے 150روپے روز کماتا ہے جبکہ قالین بافی کرنے والے لوگوں کی صورتحال اس سے زیادہ ابتر ہے۔ صدر نے بتایا ’’ کل وقتی دستکار اورجزوقتی دستکار کے درمیان فرق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کل وقتی دستکاروں کی مالی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدام کئے جائیں تو ہم نوجوان نسل کو راغب کرسکتے ہیں۔نذیر نے بتایا ’’ اگر عام مزدور روزانہ 500روپے کماتا ہے تو ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن سے دستکار کی روزانہ آمدنی ایک ہزار روپے تک پہنچ جائے گی کیونکہ جب عام دستکار کی آمدنی میں اضافہ ہوگا تو دست کاروں کی تعداد میں خود بہ خود اضافہ ہوگا۔ نذیر نے بتایا ’’ میری نظر میں وہ دستکار بھی موجود ہیں جو کم کمائی کی وجہ سے فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، عام کاریگروں کی مالی صورتحال کافی ابتر ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہینڑی کرافٹس ریاض کائوسہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ ہنڈی کرافٹس سے کشمیری دستکاروں کی بہبود کیلئے کئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں اور یہ سکیمیں سب دستکاروں کیلئے ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ اگر ہم پہلے ہی مان لیں کہ یہ اسکیمیں دستکاروں کی مالی حالت بہتر بنانے میں ناکام ہونگی تو ہم کوئی بھی سکیم شروع نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کرر رہے ہیں اور کئی دستکاروں کو کم شرح سود پر قرضہ فراہم کئے گئے ہیں جنہوں نے اب اپنا کام شروع کیا ہے۔