مسائل سے دوچار نوجوان نسل ! احساسِ محرومی کا ازالہ کیسے ہوگا؟

سید مصطفیٰ احمد

 

ہمارےمعاشرہ کی ترقی کی راہ میں حائل بے روزگاری نوجوان نسل ں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرے میں تعلیم یافتہ بے روزگار زیادہ تر ڈگری یافتہ ہیں ، ان کی شرح تناسب مسلسل بڑھتی جارہی ہے ۔بغور جائزہ لیا جائے توگزشتہ تین دہائیوں سے ہمارے یہاں معیشت میں جمود طاری ہے، معاشی پالیسیاں جدید خطوط سے آراستہ کرنے کی جدوجہد کا کوئی مثبت پہلو ابھی تک سامنے نہیں آرہا ہے ،کیونکہ ایک طویل عرصے کے نا مساعد حالات کے بعد موذی وائرس’ کورونا‘ سے جہاںعالمی سطح پر وقتی طور پر معیشت کو دھچکا لگا،اور وہاں بھی معاشی مسائل نے سر اٹھایا لیکن ان کی مربوط استحکامی اصلاحات نے اپنے ممالک میں عوام کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی بہت سی سہولیات و مراعات دیں، جس سے وہ ممالک تعلیمی، معاشی اور دیگر مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگئے،اور بے روزگاری کا جو سیلاب بند توڑنے والا تھا، اُس کو بڑی آسانی سے اپنی معاشی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے روک دیاگیا۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں ایک افراتفری کی فضا ابھی تک برقرار ہے، لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، جس میں زیادہ تر ہماری نوجوان نسل ہے،جبکہ تمام اداروں کا محور ایک ہی ہے کہ معاشی حالات کی بنا پر اسٹاف کم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو نوجوان مختلف اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر میں کنٹریکٹ بیس یا کہیں ڈیلی ویجز پر روزگار حاصل کررہےتھے۔اُن پر بے روزگاری کی تلوار سب سے پہلے چلائی گئی ۔ نو جو ان نسل اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ،کوئی مناسب کام نہ ملنے کے باعث ذہنی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری سے دل برداشتہ بیشترنوجوان خواہ وہ غیرتعلیم یافتہ ہو یا ڈگری یافتہ بڑی تیزی سے مختلف بُرائیوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوئے، کئی جرائم کی طرف راغب ہورہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بلا شبہ روزگار کے مواقع کی کمی، سماجی مصروفیات کا فقدان، تعلیم اور صحت کی غیر مساوی سہولیات، سماجی ناانصافیوں، فرسودہ روایات اور معاشرے کا خارجی رویوں نے نوجوانوں کو بَد دِل کردیا ہے۔ اُن کے لئےتعلیم حاصل کرنے اور باعزت ذریعہ معاش تلاش کرنے کے خواب ڈراؤنے ثابت ہوچکے ہیں۔ اس لیے مایوسی کے دلدل میں دھنستے چلےجارہے ہیں ، انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ سب سے تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی نصف تعداد کسی ہنرو فن کی تربیت سے محروم ہےاور جو تعداد کسی انسٹیٹوٹ کے بغیرہنر یافتہ ہے، انہیں مناسب مہارت اور سند نہ ہونے کی صورت میں مقامی اور قومی منڈیوں میں ہنر مند کارکنوں کے طور پر روزگار بھی نہیں ملتا ہے، ان کے حقوق کا کوئی قانونی تحفظ نہیں ہوتا ہے۔نتیجتاً معاشرے میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہےاور معاشرہ بے چینی، تیز رفتار اقتصادی بدحالی، سماجی بُرائی اور دیگر تباہ کن تبدیلیوں ، انفرادیت اور شناخت کے بحران کے شدید ترین دور میں جی رہا ہے۔ بدقسمتی سےشدید تفاوت اور خراب سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات نے مایوس اور محروم نوجوان کوپُرتشدد اور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بھی ترغیب دی ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی بڑے پیمانے پر افراد، خاندانوں اور معاشروں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس لئےاگر آج بھی معاشرے میں نوجوانوں کےمستقبل کے لیے صحیح حکمت عملی اور پالیسیاں وضع نہیں کی جاتیں، تو ہمارے پاس موجود سب سے بڑی افرادی قوت پسماندہ، عدم برداشت، سماجی برائیوں کا شکار ہو جائے گی۔ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اسی لیے معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے نوجوانوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ معیاری تعلیم کی ضمانت دے، پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت فراہم کرے، کام کے معقول مواقع فراہم کرے اور نوجوانوں کی صحت اور دیگر چیلنجز سے نمٹا جائے۔حکومت کو شفافیت کے ساتھ مجموعی طور پر تعلیم، روزگار کے مواقع اور نوجوانوں کی ترقی کی پالیسیوں کو بہتر بنانا چاہیے، جن کی کمی ملک کی تعمیر وترقی میں رکاوٹ ہے۔ حکومت کو اسٹارٹ اَپ کاروبار کے فروغ، نوجوان کاروباریوں اور ملازمین کے لیے ٹیکس چھوٹ، ملکی اور بین الاقوامی سیاحت کے فروغ اور کھیلوں کے ذریعے وسائل کی پیداوار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ نوجوانوں کو ان کی مایوسی اور کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرنا زیادہ اہم ہے جو بالآخر بنیاد پرستی اور پرتشدد انتہا پسندی میں حصہ لینے کے مواقع کم کرسکتاہے۔
اگر معاشرے میں تفاوت اور محرومیوں کا احساس برقرار رہے تو یہ سماجی بدامنی کا باعث بن سکتا اور بالآخر بڑے پیمانے پر قومی سلامتی کو متاثر کر سکتا ہے۔ تشدد، بدعنوانی اور جبر سے نمٹنے کےلئےملک کے استحکام کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔ جب تک کہ لوگوں کو صحت، تعلیم اور معاش تک مساوی رسائی نہیں دی جاتی،ان کی احساس محرومی کا ازالہ نہیں ہوسکتاہے۔
[email protected]