مرحوم نذیر احمد قادری کی علمی و ادبی خدمات

قُدرت نے وادی ٔکشمیر کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔جہاں ایک طرف یہاں کے فطری مناظردل ونگاہ کو مسرور کرتے ہیں وہیں دوسری جانب یہ خطہ علم و ادب کی ایک مستحکم تاریخ رکھتا ہے۔ کشمیر کی زرخیز مٹی نے بلند پایہ دانشوروں، مبلغوں، عالموں اور ادیبوں اور شاعروں کو جنم دیا ہے‘ جن میں عاشقِ علم وادب اور ہردلعزیزاستادمرحوم نذیر احمد قادری صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ قادری صاحب شریف النفس، خوش مزاج، اور نرم گفتار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی ولادت ۲۷ اپریل ۱۹۴۴؁ء میں نعل بند پورہ صفا کدل سرینگر میں ہوئی۔ والد کا نام محمد امین قادری اور والدہ کا نام عائشہ قادری تھا۔ آپ کے والد ماجد ایک روحانی بزرگ تھے ۔اُن کا میل مِلاپ زیادہ تر مختلف علاقوں کے مُریدوں کے ساتھ رہتا تھا۔  ۱۹۴۸؁ء میں آپ کے والد ماجد محمد امین قادری نے بحکم مرشد صفا کدل سرینگر سے ہجرت کی اور علاقۂ بُرن پٹن میں سکونت اختیار کی۔
مرحوم نذیر احمد قادری نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اسی علاقے سے کیا۔ انہیں بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے سے بڑی دلچسپی تھی اور   بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس دلچسپی میں اضافہ ہوتا رہا ۔ انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کی شروعات پٹن میںواقع ایک پرائمری اسکول سے کی، جسے بعد میں مڈل اسکول کا درجہ دیا گیا۔ آٹھویں جماعت کا امتحان اسی اسکول سے پاس کیا اور نویں جماعت میں اردو کے ساتھ فارسی کا بھی انتخاب کیا۔ آپ نے ہائی اسکول پٹن سے دسویں جماعت کا امتحان پہلی پوزیشن میں پاس کیا پھر والد کے کہنے پر سری پرتاب کالج سرینگر میں سائنس مضامین کے ساتھ داخلہ لیا۔ آپ کے بہترین اساتذہ میں شیخ نور الدین، غلام محمد میر، محمد سیف الدین صدیق وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔قادری صاحب نے انگریزی اور ایجوکیشن دونوں مضامین میں ماسٹرز کی ڈگریاں امتیازی نمبرات کے ساتھ حاصل کیں۔ بعد میں بی۔ایڈ اور ایم ۔ایڈ کی تعلیم بھی مکمل کی۔
قادری صاحب گرلز ہائی اسکول پٹن میں بحیثیت ہیڈماسٹر تعینات رہے اور اپنے فرائض منصبی بخوبی انجام دیتے رہے۔ آخرکار ۲۰۰۲ء؁ میں ہائی اسکول پلہالن سے بحیثیت ہیڈماسٹر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
نذیر احمد قادری استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب اور صحافی بھی تھے۔ انہوں نے ۱۹۸۵؁ء میں ماہنامہ ’’TOPAZ ‘‘ انگریزی زبان میں شائع کیا جس میں ادبی، سماجی، مذہبی اور سیاسی مضامین شائع ہوتے رہے۔ یہ رسالہ اگرچہ عوامی حلقوں میں مقبول ہوا لیکن بعدمیں کسی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا۔ان کی زندگی میں رنج و غم کا پہاڑ اس وقت ٹوٹ پڑا جب اُن کے اِکلوتے بیٹے باسط قادری ۲۱ جولائی ۱۹۹۴؁ء میں اچانک غائب ہوئے۔ جس کا پھر کہیں بھی کچھ پتہ نہیں چلا۔ بیٹے کے اس روح فرسا اور دلخراش صدمے کا اثر قادری صاحب کی شخصیت پر تادمِ حیات رہا۔ ان کی یاد میں انہوں نے سن ۲۰۰۰ء؁ میں علاقۂ بُرن پٹن میں ’’باسط میموریل انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ جہاں پر کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات فیض یاب ہوئے ۔
اسی طرح ادبی انجمن’’کوہسارِ ادب‘‘ کی داغ بیل ۹ جنوری ۲۰۰۸؁ء کو انجمن کے دو معمار نذیر احمد قادری صاحب اور ان کے ہم نشین غلام نبی انقلابیؔ صاحب نے ایس۔ اِی۔ ایم کالج بڈگام میں ڈالی۔ اس انجمن کے دائرے کے اندر ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔جو تاحال جاری و ساری ہے۔
نذیر احمدقادری بلند پایہ ادیب، صحافی، مترجم اور افسانہ نگار کے علاوہ بہت بڑے دانشور بھی تھے۔ انہوں نے اردو اور انگریزی میں ایک درجن کے قریب تصانیف تحریر کی ہیں۔ جن میں  ’’MY KASHMIR MY LIFE‘‘ ’’ON EDUCATION‘‘  ’’ALLAMA ANWAR SHAH(RH) ‘‘(انگریزی، اردو) ’’ریت کے ڈورے‘‘(افسانوی مجموعہ) ’’سرادِقات‘‘(اورادِ خمسہ) ’’اوراق‘‘ (ڈائری کے) اور ’’STRAY THOUGHTS‘‘ (انگریزی)کتابیںقابلِ ذکر ہیں۔ان کے علاوہ بطورِ کالم نگار آپ کے کالم باقاعدگی کے ساتھ وادی کے مشہور و معروف اخبارات میں چھپتے رہے۔
ان کی انگریزی کتابوں میں ’’THE PRIDE OF KASHMIR۔۔۔ALLAMA MUHAMMAD ANWAR SHAH‘‘ علمی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔جس کا اعتراف علامہ انور شاہ کشمیری ؒکے فرزند علامہ محمد انظر شاہ کشمیری ؒ کتاب کی تمہید میں فرماتے ہیں: 
’’عربی، فارسی،اردو، بنگلہ زبانوں میں سوانح تیار کی گئیں، خوب لکھا گیا اور جہان علم کو سیراب کیا گیا لیکن ابھی ایک گوشہ باقی تھا، وہ زبان جو فرنگی ہونے کے باوجود ترجمان علم و لہجہ جو غیر ملکی ہونے کے باوصف عالمگیر، ہمارے برادرِ عزیز مشہور صحافی محترم و مکرم جناب نذیر احمد قادری صاحب کشمیری کی شاہ بازی آسمان علم پر پرواز کھولنے والی اس شخصیت کو کیسے نظر انداز کرتی، ان کے علم و فہم، ثاقب و ذہن، حاذق قلم نے اس شخصیت کو بھی چھوا اور یوں مدّتوں کی ایک آرزو طویل وقت کی ایک تمنا کی تکمیل کے لئے قدرتِ کاملہ نے اس پر نظر ڈالی۔‘‘ (از:فخر کشمیر علامہ محمد انور شاہ ؒ)
اس کتاب میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی عبقری شخصیت اور علمی وادبی اور دینی خدمات کا مفصل جائزہ پیش ہواہے۔ کتاب کی اہمیت وافادیت اور معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے اردو کے مشہور و معروف ناقد ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری روزنامہ ’’کشمیر عظمی ‘‘ میں شائع شدہ مضمون میںیوں رقمطراز ہیں:
’’یہ تصنیف نہ صرف علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کے مُنور گوشوں کو انگریزی میں اُجاگر کرنے کی قابلِ تحسین کاوش ہے بلکہ موصوف کی نابغہ روزگار شخصیت کو مغرب کے تعلیمی اور علمی اداروں میں متعارف کرانے کے لیے بھی بڑی کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ ‘‘ (کشمیر عظمیٰ ۱۳ نومبر ۲۰۱۶)
نذیر قادری صاحب کی کتب میں ایک اور اہم کتاب’ سرادقات‘ بھی شامل ہے۔جس پر بات کرتے ہوئے ممتاز عالمِ دین مفتی منظور رضا نعیمی صاحب فرماتے ہیںکہ’’جب قادری صاحب نے احقر کو (سرادِقات) نامی کتاب تحفے میں دی تو نام میں ہی احقر سوچتا رہ گیا،اِدھر اُدھر دیکھنے کے باوجود اس کا معنی کہیں نہیں ملا۔آخر ایک دن سورہ کہف کی تلاوت کے دوران (سرادقھا)لفظ ملا ،دل بھی خوش ہوا اور حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی علمی شخصیت کا اندازہ بھی ہوا۔‘‘
نذیر احمد قادری کو شاعر مشرق علامہ اقبالؔ ؒ کے ساتھ قلبی اُنس تھا۔علّامہ کی فارسی اور اردو شاعری کا باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا ۔راقم کو اکثر اوقات علّامہ اقبالؔ اور خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں بتاتے رہتے تھے اور اقبال کے کلام کو پڑھنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ایک دن ایک سوال کے جواب میں یوں فرمایا: میں نے علامہ اقبالؔ کے کلام میں خودی،توحید،اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پایا۔علّامہ کا کلام سنتے ہی آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہوتی تھی ۔
قادری صاحب نیک سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ صوم و صلواۃ کے پابند تھے۔آپ کے مُحبین اور مریدین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔دراصل آپ اپنے والد ماجد سے روحانی فیض حاصل کرچکے تھے اور وطن عزیز کی معروف علمی شخصیت علامہ سیّدمحمد قاسم شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے صحبت میںبھی رہ چکے تھے ۔ انجمن تبلیغ الاسلام کے ماہنامہ رسالہ ’’الاعتقاد‘‘ کے مسلسل قاری بھی تھے۔بہر کیف ۱۹ مئی ۲۰۲۱ء؁ کو یہ علم و ادب کا روشن ستارہ مختصر علالت کے بعدہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔تاہم ان کی تحریرکردہ کتابیں ہمیشہ ان کے نام کو زندہ رکھیں گی۔
سنے کون قصۂ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشنائوں کا پاس تھا، وہ وفا شعار چلا گیا
نصیر الدین نصیرؒ
گنجی پورہ بُرن پٹن
رابطہ: 9149586859