مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو لار گاندربل کے لوگوں کا جواب کشمیری پنڈت لڑکی کی شادی کے انتظامات کئے، دلہے کا استقبال کیا اور ایک ساتھ کھانا کھایا

ارشاد احمد

 

گاندربل//لار گاندربل میں صدیوں پرانے بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کی مشعل فروزاں کی گئی۔یہاں سکونت پذیر ایک کشمیری ہندو لڑکی کی شادی اسیم دھوم دھام سے منائی گئی جس طرح اکثریتی فرقہ عام طور پر مناتا ہے۔ مقامی مسلمانوں نے ہندو لڑکی کی شادی میں  نہ صرف انتظامات میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ شامیانے سے لیکر ڈیکوریشن اور دعوت سے لیکر دلہن کے استقبال تک اپنے آپ کو پیش کیا۔لار گاندربل کے رہائشی آنجہانی پنڈت موہن لال کول کی بیٹی مینو کول کی شادی کی تقریب منگل کو منعقد ہوئی۔ مینو کول کے دہلے کے استقبال کیلئے شامیانہ لگایا گیا تھا اور مکمل ڈیکوریشن کی گئی تھی۔ مقامی مسلم خواتین روایتی روف گا رہی تھیں اور دلہے کا استقبال کرنے کیلئے کھڑی رہیں۔ مسلمان پڑوسیوں نے  اس شادی کو یاد گار بنانے کا پہلے سے ہی فیصلہ کیا تھا۔مقامی مسلمانوں نے نہ صرف ہندو لڑکی کی شادی میں برھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ یہاں ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔

 

یہاں شادی کی تقریب چار روز سے جاری تھی اور 4روز تک ہر ایک چیز مقامی لوگوں کے اشتراک سے ہوئی۔لار کے سابق سرپنچ شیخ مشتاق نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ آنجہانی موہن لال کول نومبر  2013 میں  فوت ہوا۔ ان کی دو بیٹیاں، ایک لڑکا اور اہلیہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود بھی کشمیر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے ہر مسلمانوں کے دکھ سکھ میں ساتھ دیا۔.انجہانی کی بڑی بیٹی کی شادی 15 سال قبل انجام دی گئی تھی جبکہ چھوٹی بیٹی مینو کول کی شادی بڈگام کے نوجوان گوپال جی سے انجام دی گئی جو کہ پیشہ سے سرکاری استاد ہیں۔ دلہن مینو کول کے بھائی وکاس کول نے کشمیر عظمیٰ سے شادی کی تقریب کی خوبصورت اور یادگار لمحات کے بارے میں بتایا کہ”میرے والد محکمہ اریگیش میں ملازمت کرتے تھے، سبکدوش ہونے کے بعد وہ زیادہ تر گھر کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔سال1990سے لیکر آج تک جب  بھی کشمیر میں حالات خراب ہوئے، ہم نے کشمیر سے نکلنے کے بارے میں کبھی ارادہ نہیں کیا ،خاص کر والد صاحب یہ کہتے تھے کہ میرا جنم اسی دھرتی پر ہوا ہے اور مرکر بھی اسی دھرتی میں مل جاوں گا اور یہ سچ بھی ہوا ۔سال 2013 میں ان کی موت واقع ہوئی۔ان کی موت کے وقت بھی مقامی مسلمان  ہمارے صدمہ میں برابر شریک ہوئے جبکہ میری بہن کی شادی کی تقریب جو چار روز تک جاری رہی ،مسلمان مرد و خواتین نے مہندی رات کو گانے اور رقص سمیت دیگر رسومات میں حصہ لیا جو ہندو مسلم بھائی چارے کی زندہ مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ میری بہن مینو کول نے ابتدائی تعلیم سے لیکر گریجویشن مکمل کرنے تک مسلمان لڑکیوں کے ہمراہ بغیر کسی خوف کے  تعلیم جاری رکھی۔

 

انہوں نے کہا کہ یہاں کے ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں پرانا بھائیوں جیسا رشتہ ہے، جو نہیں ٹوٹ سکتا۔