محمود آفندی۔اکیسویں صدی کی مجد ِدّانہ شخصیت مردِ تقویٰ

ڈاکٹر خالد حسین

عصری مسلم دنیا میںاسلام کی ترقی کو بیان کرتے وقت مورخین کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ محمود استاؤسمان اوگلو، جنہیں محمود آفندی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو نظر انداز کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ محمود آفندی بیسویں اور اکیسویں صدی میںنہ صرف ترکی بلکہ پوری اسلامی دنیا کی پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے صحیح معنوں میں اور عملی طریقوں سے سنت و تقویٰ کا پرچار کیا کیونکہ وہ خود دنیا میںـ’’مرد تقویٰ‘‘تھے۔
محمود آفندی نے استنبول میں زندگی گزاری اور اپنی پوری زندگی اسلام، انسانیت اور امن کی خدمت میں گزاری۔ اس نے اس قدر پرجوش طریقے سے کام کیا کہ دوسروں کے لیے اس کے ساتھ رفتار برقرار رکھنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ 1929ء میں ترکی کے صوبے ترابزون کے ایک گاؤں مائیکو (تاؤسانلی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علی آفندی، مصطفیٰ آفندی کے بیٹے، جبکہ ان کی والدہ فاطمہ حنیم آفندی جو طوفان آفندی کی بیٹی تھیں، انتہائی قابل احترام لوگ تھے جو اپنی روحانیت اور تقویٰ کے لیے مشہور تھے۔ محمود آفندی نے اپنے والدین کی رہنمائی میں اس وقت قرآن حفظ کیا جب وہ محض چھ سال کا تھا، حالانکہ وہ ابھی کمسن لڑکا تھا، وہ مسجد میں نماز ادا کرنے جاتا تھا اور فرض عبادتوں کے علاوہ نوافل عبادات کو بھی بہت اہمیت دیتا تھا۔وہ اپنے بچپن میں اتنا بااثر اور متاثر کن بچہ تھا کہ اس کے گاؤں کے لوگ اس اُمید پر اپنے بچوں کا نام ’’محمود‘‘ رکھتے تھے کہ وہ بھی ان جیسا بنیں گے۔
محمود آفندی نے اسلامی علوم کی خاطر قیصری کا سفر کیا اور عربی زبان کے بنیادی اصول جیسے صرف اور نحو اور فارسی، تسبیحزادے احمد ہوجا آفندی سے سیکھے، جو اس علاقے کے ایک معزز عالم دین تھے۔ ایک سال تک قیصری میں رہنے کے بعدوہ اپنے آبائی گاؤں واپس آئے اور اس دور کے معروف ترین قاری محمد روسدو اسقوتلو ہوجا آفندی سے قرأت کے اصول و ضوابط سیکھے۔ انہوں نے علوم بلاغہ، علم الکلام، تفسیر، علم الحدیث، اصول الفقہ اور دیگر علوم اسلامیہ کی تعلیم مدرسہ سلیمانیہ کے سینئر پروفیسر کلیکلی ہاچی درسن فیزی آفندی سے حاصل کی، جو کہ ایک ممتاز اور فکری اور عقلی علومماہر عالم دین تھے۔ محمود آفندی نے محض سولہ سال کی عمر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اسی سال اس نے زہرہ حنیم (متوفی 1993) سے شادی کی اور ان کے تین بچے احمد، عبداللہ اور فاطمہ پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1993ء میں قہرمانمارش کے ایک قابل ذکر اور انتہائی قابل احترام شخص شیخ منصور بیدیمیر آفندی کی بیٹی زہرہ حنیم کی موت کے بعد مسرف حنیم سے بھی شادی کی۔
جون 1952 میں، محمود آفندی فوجی خدمات انجام دینے کے لیے باندرما گئے۔ اسی دوران ان کی ملاقات اپنے مرشد شیخ علی حیدر احشخوی النقشبندی الخالدی (متوفی 1960) سے ہوئی جو ترکی کے عظیم علماء میں سے ایک تھے اور روحانی طور پر ایک صالح انسان تھے اور ان کو علم دین پر اس قدر دسترس حاصل تھا کہ وہ سنی فقہ کے چاروںمذاہب کے بارے میں علم رکھتے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے لیے فتویٰ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ علی حیدر آفندی اپنے شاگردوںکے درمیان اکثر محمود آفندی کا ذکر کیا کرتے تھے کہ ’’یہاں بندرمہ میں ایک سپاہی ہے، اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لے آؤ‘‘۔ اس پکار کو سن کر انہوں نے باندرما میں سپاہی کی تلاش شروع کی۔ لیکن یہ بہت مشکل کام تھا، کیونکہ اس سپاہی کا کوئی نام، کنیت یا پتہ معلوم نہیں تھا۔ محمود آفندی خود بتاتے ہیں کہ ـ’’مجھے ہمیشہ، بہت چھوٹی عمر سے ہی علماء اور صلحاء سے کافی لگاؤ تھا۔ میں جب بھی کسی عالم یا ولی کے بارے میں سنتا ہوں، میں ان کی زیارت کرنا اپنے لئے سعادتمندی سمجھتا ہوں‘‘، اور ایک موقع پر ان کی ملاقات شیخ علی حیدر سے ہوئی۔ شیخ علی حیدر آفندی نے محمود آفندی میں بہت دلچسپی ظاہر کی اور وہ ان سے بہت محبت اور احترام کرتے تھے۔ شیخ علی حیدر آفندی کے شاگرد کبھی کبھاران سے پوچھتے ’’آپ ایک ایسے سپاہی کو اتنی عزت کیوں دیتے ہو جسے آپ جانتے تک نہیں؟‘‘ شیخ علی حیدر آفندی جواب دیتے’’اللہ کے فضل سے ابھی تک ان کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ درج نہیں ہوا ہے‘‘۔ 1954ء میں اپنی فوجی خدمات مکمل کرنے کے بعد محمود آفندی کو استنبول میں اسماعیل آغا مسجد کا سرکاری امام مقرر کیا گیا، جہاں وہ 1996ء میں ریٹائر ہونے تک رہے۔
1960ء میں اپنے مرشد شیخ علی حیدر آفندی کی وفات کے بعد محمود آفندی کی زندگی میں شاندار ذمہ داریوں کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ وہ ایک امام کی حیثیت سے کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء کی اسلامی تعلیم اور روحانی رہنمائی کے فرائض انجام دینے میں بھی مصروف رہے۔ مسلم دنیا کے بہت سے علماء نے محمود آفندی سے استفادہ حاصل کیا۔ 12 ستمبر 1980 ء کی بغاوت سے پہلے دائیں اور بائیں بازو کے گروہوں کے درمیان مسلسل تنازعات کے دوران شیخ محمود آفندی نے لوگوں سے کہا،’’آئیے جہاد کریں، اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کے درمیان تجدید کے کام کو زندہ کریں۔ لوگوں کو مارنا ہمارا فرض نہیں ہےبلکہ لوگوں کے درمیان نیک کاموں کی ترویج اور ان کو برائیوں سے روکنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ آپ نے لوگوں کو پرسکون کرنے کی کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب رہے۔
1988ء میں محمود آفندی نے پہلی بار دمشق اور شام کا دورہ کیا اور 1992ء میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے مقصد سے انگلستان اور جرمنی کا سفر کیا اور اسی سال دوبارہ بخارا تشریف لے گئے۔ انھوں نے ان علاقوںکے مشہور علماء کے مزارات کی زیارت کی اور ان خطوں کے نامور علماء سے ملاقاتیں بھی کیں۔
فروری 2005 ء میں، شیخ محمود آفندی نے امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد الفاروق السرہندی اور اسلام کے دیگر معزز علماء، جیسے خواجہ باقی باللہ، سید نور محمد بدایونی، مرزا مظہرجان جانان اورشاہ عبداللہ دہلوی کے مزارات کی زیارت کے لیے ہندوستان کا سفر کیا۔ ترکی کے قریبی علاقوں کے سفر کے علاوہ شیخ محمود آفندی نے بہت سے مواقع پر لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیمات اور حق کی طرف بلانے کی کوشش میں مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور یورپ کا بھی سفر کیا۔ انہوں نے زندگی بھر کئی بار حج اور عمرہ کیے۔ اپریل 2011 ء میںانہوں نے اپنے پچاس ہزار سے زائد شاگردوںکے ساتھ مل کر ایک شاندار عمرہ ادا کیا اوریہ ایسامنظر تھا جوکئی صدیوں سے نہیں دیکھا گیا تھا۔
شیخ محمود آفندی کی صاحب سنت والی زندگی ، علوم شرعیہ کے بارے میں ان کا گہرا علم اور مجموعی طور پر ان کے اسلامی طرز عمل نے عالم اسلام کے ان علماء اور اہل علم دونوں پر بہت اچھے اثرات مرتب کیے ہیں جن سے وہ اپنے سفر کے دوران ملے تھے، اور ان لوگوں پر جو اس سے ملنے آئے تھے۔ چنانچہ شیخ محمود آفندی نے معقول طور پر اسلامی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا تھا اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی پذیرائی اور پیار سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے بہت سارے اسلامی سائنسی اجلاسوں اور سمپوزیموں کی صدارت کی اور لوگوں کو علم حاصل کرنے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دی۔ ابوداؤد میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے شروع میں ایک شخص کو اٹھائے گا جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرے گا‘‘۔(ابو داؤد: 4291)۔ تجدید کے معنی قرآن و سنت پر عمل کرنے کے ہیں اور اس عمل کو ایسے وقت میں زندہ کرنا جب قرآن و سنت کے احکام سے لاپرواہی بھرتی جارہی ہواوراس کی اشاعت کرنے والوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہوں۔ چنانچہ اس حدیث کی بنیاد پر علماء نے ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ 2010ء میں 43 ممالک سے تقریباً چار سو نامور اور معزز علماء استنبول میں ملاقات کے لیے آئے اور شیخ محمود آفندی کو 21ویں صدی کا مجدد قرار دیا اور انہیں ’’ انسانیت کی بہترین خدمتـ‘‘ کا ایوارڈ پیش کیا۔اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کے بعد اسلام کے یہ عظیم عالم دین اور اکیسویں صدی کے مجدد 23 جون 2022 کو 93 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔مجدد شیخ محمود آفندی نے ساری زندگی لوگوں کو علم حاصل کرنے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کی ترغیب دی نہ صرف اپنے قول سے بلکہ عمل سے بھی۔ اس نے کبھی بھی عبادت کی کسی بھی شکل کو ترک یا نظرانداز نہیں کیا اور ان لوگوں کے لئے حوصلہ افزائی اور ترغیب کا ذریعہ بنے جو ان کی شریعت کی پابندی اور اللہ کے احکامات پر ثابت قدمی کے گواہ ہیں۔ انھوں نے ایمان، تقویٰ، اچھے اخلاق اور انسانیت کی فلاح و بہبودی اور علم کی اشاعت اور فروغ کے لیے بہت سے نمایا کام کیے۔ شیخ محمود آفندی نے ہمیشہ لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے، حکمت کو عملی جامہ پہنانے اور نیکی کو مقصد زندگی بنانے کی ترغیب دی۔
محمود آفندی کے خطبات، جو انہوں نے پچاس سال سے زیادہ عرصے سے باقاعدگی سے دیئے ، جن میں اسلام کے کثیر جہتی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے، شاگردوںنے جمع اور محفوظ کیا ہے اورابھی تک چھ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ شیخ محمود آفندی کا سب سے اصل قابل ستائش اور فائدہ مند کام قرآن مجید کا تُرکی زبان میں ترجمہ کرنا ہے جس کا نام ’’قرآن مجید‘‘ ہے۔ شیخ محمود آفندی کی ایک اور سب سے بڑی تصنیف ’’روح الفرقان‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر ہے۔
شیخ محمود آفندی اسلام اور پوری انسانیت کی بہت بہتر خدمت کرنے کے لئے مختلف مذہبی، سماجی اور فلاحی تنظیمیں اور فاؤنڈیشنیں قائم کیں، خاص طور پر ’’مجدد محمود آفندی فاؤنڈیشن‘‘، ’’دی معارفت ایسوسی ایشن‘‘، ’’دی فیڈریشن آف معارفت ایسوسی ایشنز‘‘ اور’’’اہل سنت والجماعت کنفیڈریشن‘‘۔ ان کی یہ تنظیمیں تعلیم، ثقافت، سائنسی تحقیق، صحت، فلاحی، اور قومی و بین الاقوامی سماجی تنظیموں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ انہوں نے ایک ماہانہ علمی اور ثقافتی رسالہ بھی نکالا جس کا نام ’’معارفت‘‘ ہے۔ محمود آفندی خاص طور پر مسلمانوں اوراسلامی ممالک کے درمیان بہترین تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں تھے اور ایک پرامن دنیا کے حق میں تھے۔ پوری دنیا میں ان کے لاکھوں شاگرد اور چاہنے والے ہیں۔ آپ اکیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے بہترین ترجمان اور سب سے نمایاں شخصیت تھے۔
(مصنف اسلامک سٹیڈیز کے ایک محقق اور کالم نگار ہیں۔
ان سے[email protected]پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)