محرومی

میں جہانِ تصور کا شہری ہوں
میں دنیائے تخئیل کا باشندہ
مجھے وہ سب بہم ہوا جو کبھی سوچا ہی نہ تھا
جو سدا سوچتے رہے وہ کبھی حاصل ہی نہ ہوسکا
شہر کے چکا چوند بھرے بازاروں سے
تنگ کوچوں سے،
فراخ گلیوں سے گزرتے ہوئے
دانستہ نادانستہ
ہر اونچے، عمدہ اور خوبصورت مکان کی طرف
میری نگاہیں اُٹھتی ہیں۔
فرطہ محرومی کے زیرِ اثر
برشگال سے اپنے لاغر وجود کو ترکرنے لگتا ہوں
کاش۔۔۔۔کاش میرا بھی ایک ایسا مکاں ہوتا
جہاں میں خود کو، اپنی کائنات کو سمیٹ کر رکھ لیتا
جس کے بام پر ہر رات چاند چمکتا،
جس کے دریچے پر بیٹھ کر کوئی میری واپسی کی راہ تکتا،
جس کے آنگن میں رنگ برنگے پھول۔
آہِ سرد بھر کر نظر پھیر لیتا ہوں
کہیں یہ تنگ نظر ابنِ آدم
جو وقت کے خدا بنے بیٹھے ہیں
مجھ پہ شبہ نہ کریں
رسمِ ایرانی دہرا کر، آزر میدخت کی طرح
میری مجبور، محروم اور سوالی آنکھیں بہانہ دیں
چند ساعتیں دل پر سے جو بوجھ ہلکا ہوگیا تھا
وہ سینۂ فگار پر پھر سے محسوس کرنے لگتا ہوں،
اپنے زخموں پر خود ہی پھاہا رکھتا ہوں
اپنے دل کو یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں۔۔۔!!
اپنا وقت ضرور آئے گا
جب ہر چیز میسر ہوگی
جب سب کچھ بہم ہوگا
خدا کرے اُس سب کچھ میں
میری زندگی بھی شامل ہو۔
مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام
موبائل نمبر؛9906486481