محرم سپیشل

بحضور امام عالی مقامؑ
باطل نہ ہم سے چھیڑ ہے نسبت حسینؑ سے
ہیں وارثانِ کربلا بیعت حسینؑ سے

آئی مکاں کے ہاتھ میں سجدے کی آبرو
پایا زمن نے درسِ شہادت حسینؑ سے

کروادیا جو پیاس سے سیراب کربلا
دکھلا ئی رب نے صبر کی صورت حسینؑ سے

محفوظ کر لئے بیاں نے حُر کی حرمتیں
تکمیل پا گئی ہے شجاعت حسینؑ سے

گلہائے اشک آؤ نچھاور نہ کیوں کریں
خوشبو رسول کی ہے عقیدت حسینؑ سے

ماتم کو کیسے لاؤں بتاؤ فرات تک
ملتی نہیں ہے درد کو فرصت حسینؑ سے

شیداؔ حبیبِ کُل ہیں جو مولائے دو جہاں
اُلفت علی سے اور محبت حسینؑ سے

علی شیداؔؔ
نجدون نی پورہ، اسلام آبادکشمیر
موبائل نمبر؛9419045087

منقبتِ امام حسین

مانا کہ سخت تر تھے مسائل حسین کے
قدموں میں تھی جُھکی ہوئی منزل حسین کے

اعلی ہے شان آج بھی سبطِ رسول کی
الفاظ یہ کہاں مرے قابل حسین کے

آغاز کی خبر ہے نہ انجام ذہن میں
ہم لوگ قافلے میں ہیں شامل حسین کے

حیران تھا فلک بھی شجاعت کو دیکھ کر
لشکر میں کوئی بھی نہ تھا بُزدل حسین کے

آتی ہے کربلا کی زمیں سے یہی صدا
“ہوں گے نہ سرخرو کبھی قاتل حسین کے”

خیرات پنجتن کی ہمیں ملتی ہے سدا
ادنیٰ فقیر ہم بھی ہیں ساحل حسین کے

مراد ساحلؔ
دوحہ ،قطر
موبائل نمبر؛97431484997

پانی پانی ہے شرم سے پانی
دُور تھا جو حسین سے پانی
در بدر تب سے ہی پھرے پانی
پیاس سبطِ نبی کی ہے لوگو
پانی پانی ہے شرم سے پانی
کیسے ہوتے ہیں کربلا والے
بھر کے چلو میں دیکھ لے پانی
تیری قسمت پہ رشک ہے مجھکو
تشنہ کامی سے یہ کہے پانی
ابنِ حیدر کی پیاس کے آگے
پانی بھرتا ہوا پھرے پانی
رو رہا ہے غمِ حسین میں تُو
تیری آنکھوں میں بھی رہے پانی
حکمِ ربیّ ہے ورنہ اے لوگو
وہ کہیں اور بس سُنے پانی
تب کھلیں گے وفا کے پھول قمرؔ
اپنے وعدوں کو پہلے دے پانی

عمران قمرؔ
موبائل نمبر؛ 8920472523
رکن پور، شکوہ آباد ، اتر پردیش

نوحۂ حسینؑ
جگر کا چِھدنا ہے زخم کیسا وہ درد اکبر کی ماں سے پوچھو
جھلستے رن میں ہے پیاس کیسی وہ جاکے کڑیل جواں سے پوچھو
تھا تپتی ریتی پہ میرا مولا کہ شمر لے کر تھا کند خنجر
گلا وہ سوکھا کٹا تھا کیسے زمیں سے اور آسماں سے پوچھو
ہے حیف تم پہ اے حرملہ کہ نہ تشنہ لب پر یوں تیر مارو
خطا یہ بولو ہے کیا تمہاری خدارا یہ بے زباں سے پوچھو
ہے جلتی ریتی پہ میرا غازی کہ دھوپ اپنے عروج پر ہے
گئے نا کیوں تم نہر کنارے ذرا کسی سائباں سے پوچھو
طمانچے کھا کر ننھی سکینہ کیا ہاتھ چہرے پہ رکھ رہی تھی
پکارتی تھی کیا بابا بابا یہ رخ کے نیلے نشان سے پوچھو
صدا میں اس کی نئی دمک ہے کی صبح عاشور کی چمک ہے
لہو سے تم کو ہے کس نے سینچا یہ گونجتی اس اذاں سے پوچھو
سفر کٹھن سا ہے پاؤں چھلنی کہ جسمِ عابد لہو لہو ہے
وہ راہ سے کیسے گزر رہے تھے، ہاں آ کے طوق گراں سے پوچھو
ملا نہ قطرہ تیری نہر سے ہیں آب ِ کوثر کے سارے وارث
یہ کیسی تیری تھی میزبانی ابھی یہ آبِ رواں سے پوچھو
ہوا ذرا جا بہن سے کہنا نہ اب کے لوٹے گا تیرا اکبر
کیا منتظر ہے ابھی بھی صغرا یہ اس کی آہ و فغاں سے پوچھو
جو کٹ کے نیزے پہ جاکے روشن حسین کا وہ سرِمبارک
تھی کیسی نیزے پہ بھی تلاوت فلک ذرا وہ قرآں سے پوچھو
تڑپ کے آنسوں بہا رہی تھی مدینہ آکے یہ بولی زینب
مکین سارے کہاں گئے ہیں یہ میرے خالی مکاں سے پوچھوں
جگر کا چھدنا ہے زخم کیسا یہ جاکے اکبر کی ماں سے پوچھو

فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام کشمیر،موبائل نمبر؛6005513109

 

نواسۂ حضرتِ محمدؐ

حُسینؓ ابنِ علیؓ کا دیکھو خدائے رحمٰں پہ اصل ایماں
جبینِ پاک حسنؓ بھی دیکھو کہ اللہ اللہ ہے نورِ تاباں

کروں میں کیسے بیان شانِ نواسۂ حضرتِ محمدؐ
کہ جن کے ایثارِ بے بَدَل پہ خدائے عرشِ بریں ہے نازاں

ستم گروں نے دغا دیا ہے، دغا دیا ہے، دغا دیا ہے
ابد تلک یہ وفا کی شمعیں لہو سے اپنی رکھی فروزاں

جنہیں رسولِ امیںؐ نے چوما لبوں پہ جاکے جہان والو
اُنہی سے ربطِ متین بے شک نبیؐ کی دیدِ حسیں کا ساماں

قطع کیا کیوں ہے تُم نے بیٹی جنابِ زینبؓ سے دوستانہ
جسے نہ صعب و الم میں چھوٹا حجابِ شرم و حیا کا داماں

طفیل شفیع
حیدرپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛6006081653