متعدی امرا ض کیلئے مخصوص ہسپتال کا کیا ہوا؟

گزشتہ دنوں کووڈ 19 معاملات میں کمی کے آنے کے نتیجہ میں ڈی آر ڈی او کی جانب سے ہندوستان بھر میں کووڈ 19 اسپتالوں سے دستبرداری کے بعدجموں و کشمیر حکومت کی جانب سے کھنموہ سرینگرمیں 500 بستروں کی سہولت والے ایمرجنسی ہسپتال کو اپنی تحویل میں لینے اور اسے ایک مکمل متعدی امراض کے ہسپتال میں تبدیل کرنے کا فیصلہ لینے کی خبر سامنے آئی تھی اور یہ کہاجارہا تھا کہ جموںوکشمیر یونین ٹریٹری میں اس نوعیت کایہ پہلا ہسپتال ہوگا۔ اس ضمن میں انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں محکمہ صحت و طبی تعلیم کے اعلیٰ حکام کا حوالہ دیکر یہ خوش خبری دی گئی تھی جس کا وسیع پیمانے پر خیر مقد م کیاگیا تھا کیونکہ عرصہ دراز سے یہاں ایسے مخصوص ہسپتال کے قیام کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔یہ بھی سچ ہے کہ جموںوکشمیر ،خاص کر کشمیر میں متعدد متعدی امراض وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں تو ایسے میں اس طرح کے ہسپتال کا قیام خوش آئند ہے اور ویسے بھی ہم کووڈ وبا سے نمٹنے کیلئے ڈی آر ڈی او کی جانب سے قائم کئے گئے ایمر جنسی ہسپتال میں دستیاب سہولیات کو یوں ضائع ہونے دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ایک نجی عمارت میں محض دو ہفتوں کے ریکارڈ وقت میں جس طرح ڈی آر ڈی او نے عارضی ڈھانچہ تیار کرکے اُس ہسپتال کو چالو کیاتھا ،وہ اپنے آپ کو ایک مثالی کام تھا اور اب ہم قطعی اُس ڈھانچہ کو منہدم کرنے یا لپیٹنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ وہ محض ایک ڈھانچہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ جدید ترین انفراسٹرکچر سے لیس تھا جہاں نہ صرف سینکڑوں وینٹی لیٹروں کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے یونٹ ہیں، جن میں بچوں اور شیر خوار بچوں کے لئے انتہائی نگہداشت والے یونٹ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ اس ہسپتال میں بستروںکی گنجائش بہت زیادہ ہے اور بیک وقت ہم پانچ سو مریضوں کو داخل کرسکتے ہیں جس کیلئے ہر بستر ہائی فلو آکسیجن سپلائی سے لیس ہے اور اس طرح کی سہولت کا ضائع کرنا دانشمندی نہیں تھی ۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہسپتال اپنے محل وقوع اور انفراسٹرکچر کو دیکھتے ہوئے متعدی بیماریوں کے لئے انتہائی موزوں جگہ ہے تاہم پانچ سو بستروں کے ہسپتال کو چلانے کیلئے بہت زیادہ افرادی قوت درکار ہوگی اور اگر عارضی بنیادوں پر تعینا ت کئے گئے طبی و نیم طبی عملہ کی خدمات جاری بھی رکھی جائیں گی ،تب بھی ایسے ہسپتال میں عملہ کی قلت ہی رہے گی اور حکومت کو اتنے بڑے پیمانے کا ہسپتال چلانے کیلئے مستقل عملہ دستیاب کرانا پڑے گا جس کیلئے نہ صرف اسامیاں تخلیق کرناپڑیں گی بلکہ اُس کیلئے بھرتی بھی کرنا پڑے گا اور یہ صحت و طبی تعلیم کا محکمہ اکیلے خود نہیں کرسکتا ہے بلکہ اس کیلئے وزارت خزانہ و منصوبہ بندی سے رجوع کرنا ہی پڑے گا کیونکہ بالآخر پیسے کا انتظام انہوںنے کرنا ہے۔متعدی امراض کیلئے مخصوص ہسپتال کا قیام بہت اچھا منصوبہ تھالیکن تاخیر سے خدشات نے جنم لیا ہے ۔

 

وقت کا تقاضاہے کہ تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر اس ہسپتال کو حقیقت کا رو پ دیاجائے تاہم جلد بازی نہ کی جائے کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجہ میں یہ محض ایک نمائشی ہسپتال ہی بن کر رہ سکتا ہے اور عملی طور اس کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوگا۔بلاشبہ یہ ہسپتال وقت کی ضرورت ہے اور اسکا قیام عمل میں لایا جاناچاہئے کیونکہ مستقبل میں کسی وبائی بیماری یا وبا کی صورت میں، یا کسی متعدی بیماری کی صورت میں اس ہسپتال کا استعمال ایسی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ خصوصی خدمات کو یقینی بنانے کیلئے کیا جاسکتاہے۔ کئی قسم کی متعدی بیماریاں جیسے کہ تپ دق، ہپاٹائٹس، انفلوئنزا، مختلف قسم کے اسہال، ڈینگی، ملیریاوغیر ہ کے معاملات جموں و کشمیر میں بعض اوقات بڑی تعداد میں رپورٹ ہوتے ہیںاور ویسے بھی تپ دق اور ہپاٹائٹس جیسے وبائی امراض کے معاملات پہلے سے ہی جہاں بڑ ی تعداد میں موجود ہیں۔ ایسے مریضوں کا دوسرے ہسپتالوں میں علاج کرنے کے بجائے ہم اس ہسپتال میں ان کا علاج کر سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور محکمہ صحت و طبی تعلیم دیگر متعلقہ محکموں کو اعتماد میں لیکر اس ہسپتال کو فعال کرنے کا سلسلہ شروع کرے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ہسپتال میں دستیاب سہولیات سے بھرپور استفادہ کیاجائے جس کیلئے ہسپتال میں دیگر عمومی امراض کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ یہ اثاثہ ضائع ہونے اور بے کار رہنے سے بچایاجاسکے۔