ماہ رمضان اور قرآن مجید تدبر وتفکر

مشتاق تعظیم کشمیری

اللہ تعالیٰ قران مجیدمیں سورة بقرة میں ارشاد فرماتاہے:’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ ‘‘رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گيا،قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا، اس مبارک رات کو، ہم ’’لیلۃ القدر‘‘ یا’ شب قدر‘ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سورة القدر میں ارشاد فرماتا ہے:’’ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‘‘ بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔‘‘ قرآن کریم کا ماہ رمضان میں، لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو ’’لوح محفوظ ‘‘سے آسمان اول پر،’’بیت العزت‘‘ میں بیک وقت شب قدر میں اُتارا،پھراللہ تعالی نے بیت العزت سے ضرورت کے مطابق تئیس سالوں میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت جبریل علیہ السلام کے معرفت بھیجا ،قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے ،ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہنا چاہیے۔رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشاد فرمایاہے: روزہ اور قرآن قیامت کے دن (روزہ رکھنے والے اور تلاوت کرنے والے کےحق میں) سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے سے روک دیا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیں، قرآن کریم کہے گا: اے میرے ربّ! میں نے رات میں اس کو سونے سے روک دیا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلیں، پھر ان دونوں کی سفارشیں قبول کرلی جائیں گی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں، اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور اس کی تلاوت وقرات میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ان کو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا، وہیں اس عمل سے اس کی آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ بڑااجر و ثواب بھی ملے گا۔ اللہ تعالی نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر، اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رمضان میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت وغم خواری اورحضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کے دور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے معاملہ میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی تھی، جب جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے۔ جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے،تا آں کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری: 1902) اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔ ہمارے اسلاف واکابر رمضان المبارک میں، قرآن کریم کے ساتھ کس طرح چمٹے رہتے تھے ،در اصل وہ اس حقییقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ وہ تلاوتِ قرآن کریم کی توفیق کو اپنے لیےخوش قسمتی سمجھتے تھے۔ہمیں بھی اپنے بڑوں سے سیکھ کرقرآن کریم تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔ خاص کر رمضان المبارک کے مہینے میں، ہمیں پوری دل چسپی اور لگن کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ساری نفلی عبادتوں کو چھوڑ دے، تا آں کہ وہ تسبیح وتھلیل اور دعا وغیرہ کو بھی چھوڑ کر، صرف تلاوت قرآن کریم میں مشغول رہتا ہے، تو اللہ پاک اس کی ساری مرادیں پوری فرمائیں گے۔ تلاوت قرآن میں مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا، تو اللہ تعالی اس شخص کو وہ چیزیں بھی عطا فرمائیں گے۔رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علماء وصلحا کا قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت کا جو نقشہ اوپر پیش کیا ہے، وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کی دل چسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اسی طرح کی جد وجہد اور سعی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے، جب ہم خود کو اس پاک ذات کے کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے، اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے، تو وہ پاک ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرما لے گی اور ہماری آخرت سنور جائے گی۔پروردگار عالم ہم سب کو رمضان المبارک کے قیمتی اوقات کے قدر کی توفیق بخشے۔ آمین
[email protected]