ماہ ربیع الاول میں ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے؟ لمحہ ٔ فکریہ

محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ربیع الاول کا مہینہ جلوہ افروز ہوچکاہے۔ یہ اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ ربیع کے معنی عربی میں بہار کے آتے ہیں، اس کا پہلا حصہ وہ ہوتا ہے جس میں خزاں رسیدہ پیڑ پودوں پر ہریالی آتی ہے، درخت پتوں کا لباس پہنتے ہیں،غنچے چٹکتے ہیں، پھول کھلتے ہیں، اسی مناسبت سے عرب موسم بہار کے آغاز کو ربیع الاول کہتے ہیں۔ دوسرا دور وہ ہوتا ہے جب پھل پکنے لگتے ہیں اور ان کی خوشبو مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہے، عرب اسے بھی موسم بہار سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن یہ ربیع الثانی ہوتا ہے۔
ربیع الاول وہ مقدس و مبارک مہینہ ہے، جس میں خاتم النبی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔اس مہینہ میں رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اس بات کا اشارہ تھا کہ اب دنیا میں باد بہاری چلے گی، خزاں رسیدہ انسانیت میں روح پھونکی جائے گی، دنیا کو ظلمت وجہالت سے نجات ملے گی اور قتل وغارت گری کا بازار سرد پڑے گا۔ ایک روایت کے مطابق اس مہینے کی ۹؍ تاریخ،بمطابق ماہِ اپریل ۵۷۰عیسوی ،بروز سوموار آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں دین ِ اسلام لاکر جلوہ افروز ہوئے۔ سسکتی اور بلکتی انسانیت کے لیے سکون اور امن کا پیام لائے، اس مہینہ کی عظمت ہمارے دلوں میں اسی وجہ سے ہے، چیزیں نسبتوں سے ممتاز ہوتی ہیں۔ اس مہینہ کو آپ ؐ سے ایک خاص نسبت ہے، ایسی نسبت جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس مہینہ میں دوسرے اہم واقعات بھی ہوئے،اسی ماہ میں آپ ؐنے ہجرت کا سفر کیا اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے، اذان کی ابتدا ہوئی، غزوہ بنی نضیر اور غزوۃ دومۃ الجندل اسی مہینہ میں پیش آیا، جس میں مشرکین جنگ کے بغیر فرار ہو گئے۔ اسی ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فرمانرواؤں کو دعوتی خطوط ارسال کئے، قبائل تہامہ نے اسلام قبول کیا اور اسی مہینہ کی بارہ تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا سانحہ پیش آیا۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ربیع الاول کے مہینے میں آتی ہے اور وہ صرف بارہ ربیع الاول تک۔ بارہ ربیع الاول گذرا اور محبت کی ساری گرمی ، سردی میںبدل جاتی ہے۔ پھر اس مہینے میں بھی مسلمان محبت ِ رسول ؐکے نام پر جو کچھ کرتے ہیں، اس کا کوئی ثبوت نہ توحیات مبارکہ میں ملتا ہے، نہ ہی تابعین اور تبع تابعین کے دور میں، یہ بعد کی ایجاد ہے ۔ بہت سارے امور غیر شرعی انجام دئے جاتے ہیں، جو محبت رسولؐ کے خلاف ہے۔ جیسے ڈی جے پر گانے، نوجوانوں کا رقص ، اس درمیان آنے والی نمازوں سے غفلت وغیرہ۔
ہمیں اس ماہ اور موقع کو اللہ ورسول کی مرضیات کے مطابق گذارنا چاہیے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم میں سے بیش تر نے سیرت پاک کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ظاہر ہے، جب ہمیں حضورِ اکرم ؐ کی حیات مبارکہ کی جانکاری ہی نہ ہو، تو ہم اپنی زندگی کو اس نمونہ پرکیسے ڈھال سکتے ہیں۔ اس لیے اس ماہ مبارک میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اَز اول تا آخر پیدائش سے لے کر وفات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں، اس کے لیے کوئی معتبر کتاب خواہ مختصر ہو یا مطول، اپنے ذوق اور کے مطابق منتخب کرکے مطالعہ شروع کردیں،اور اپنی پسند کے اعتبار سے از اول تا آخر مطالعہ کیجئے، حیات مبارکہ کے مختلف واقعات وحوادثات سے نتائج اخذ کیجئے اور اپنی زندگی کو اس راہ پر ڈال دیجئے۔ سیرت کا مطالعہ آپ کی زندگی کی بہت ساری الجھن اور پریشانی کے حل کا ذریعہ بن جائے گا۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کا بڑا ذریعہ درود شریف کا کثرت سے اہتمام ہے۔ ہمارے یہاں درود شریف یا تو نماز کے قعدہ اخیرۃ میں پڑھی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر منعقد جلسوں میں ۔ جو نماز سے محروم ہیں، دینی جلسوں سے جنہیں نفور ہے، انہیں سالہا سال درود شریف پڑھنے کی نوبت نہیں آتی۔ ماہ ربیع الاول آیا ہے کیوں نہ اس ماہ میں درود شریف کثر ت سے پڑھیں۔ پھر سال بھر کےلئے معمول کا حصہ بنائیں۔
اس ماہ میں ہم سوشل میڈیا کا استعمال کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختصر احادیث کو دو سروں تک پہونچا سکتے ہیں، یہ دوسرے آپ کے دوست بھی ہو سکتے ہیں، مسلم بھی اور غیر مسلم بھی ۔اگر ہم پورے التزام سے مہینہ بھر اس کام کو کریں تو ہم بہتوں کی غلط فہمی دور کرسکیں گے اور بہتوں کو خیر کے کاموں پر اُبھار سکیں گے۔ مثلاً لوگوں میں اچھا وہ ہے جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہو، راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے، لا یعنی باتوں اور فضول بحثوں میں نہ پڑو، سلام کو رواج دو، حسد مت کرو، بغض مت رکھو ، بھائی بھائی بن کر رہو۔ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے ، دین آسان ہے، حیا ایمان کا حصہ ہے، نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے، پاکی آدھا ایمان ہے، مُردوں کی برائی مت کرو ، کسی نیکی کو حقیر نہ کہووغیرہ آپ کرکے دیکھیں، اس کے بہت سارے فوائد آپ کے مشاہدے میں آئیں گے۔
تجربہ سے معلوم ہوا کہ عصری درسگاہ ہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات میں اسلامی معلومات کی کمی ہوتی ہے۔ سیرت پاک کے حوالہ سے بھی ان کی معلومات عموماً سطحی ہوتی ہے، اس لیے اس ماہ میں طلبہ وطالبات کے لیے الگ الگ سیرت کوئز مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے،مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لیے بھی الگ سے مسابقاتی پروگرام ہونے چاہیے، کامیاب طلبہ وطلبات کو اچھا انعام دیا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور آئندہ سیرت پاک کے بارے میں زیادہ جاننے کا شوق پیدا ہو، ان مسابقوں کی جماعت بندی ان کی عمر اور درجات کے اعتبار سے ہوتو زیادہ بہتر ہے۔ کوشش یہ بھی کی جائے کہ اس ماہ میں ہماری مجلسی گفتگو کا موضوع بھی سیرت پاک ہی ہو، اس سے عوامی بیداری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے، سمجھنے کی پیدا ہوگی اور عمل کا ماحول بنے گا۔ جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے صاحب قلم بنایا ہے، وہ سیرت پاک کے مختلف گوشوں پر آسان زبان میں صحیح معلومات لوگوں تک پہونچانے کا کام کریں، اس سے خود ان کو بھی مطالعہ کی توفیق مل جائے گی اور اشاعت کے بعد قارئین کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا، اس عمل سے بھی ایک ماحول بنے گا اور ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ صحیح معلومات پر عمل کرکے اپنی دنیا وآخرت سنبھال لیں، کمر ہمت کس لیجئے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، انسان کو کوشش کے بقدر ہی ملتا ہے۔
اب ہر معاملات ومسائل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اسوہ اور نمونہ ہے اور اُسی پر چل کر انسان کامیابی وکامرانی حاصل کر سکتا ہے۔ فلاح دارین اسی میں ہے، دنیا بھی بنے گی اور آخرت بھی۔ ہمارا ایمان، یقین اور عقیدہ ہے کہ مثالی شخصیت صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، دوسرا کوئی نہیں۔
<[email protected]>