ماں کی دعا افسانہ

غازی عرفان خان

بس پانچ منٹ اور صبر کریں آرہی ہوں۔۔۔میں اکیلی کتنا کام کروں۔کب سے کہہ رہی ہوں کہ عماد کی شادی کروائیں۔دن بہ دن میں کمزور ہوتی جارہی ہوں۔ حلیمہ بیگم نے اپنے خاوند سے کہا۔لوجی۔۔۔ پی لیں چائے ۔۔۔غصے سے حلیمہ نے کہا۔آپ دن بھر چائے ہی پیتے رہتے ہیں۔
کبھی سوچا ہے کہ میں اکیلی اب کتنا کام کروں۔بیٹی رخصانہ تو ہاتھ بٹاتی تھی اب وہ اپنے گھر چلی گی ہے۔ عماد جوان ہے اب ہمیں اُس کی شادی کروانی ہوگی اور پھر مجھے بھی تھوڑا آرام ملے گا۔ارے بیگم! غصہ چھوڑ دو اور میری بات سن لو۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ بیٹی رخصانہ خوشی خوشی رخصت ہوگئی۔ فیضان اور مسکان اچھی طرح سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں اچھی شکل کے ساتھ ساتھ اچھی سیرت سے بھی نوازا ہے۔ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت، پنجگانہ نماز، بڑوں کا احترام، ایک دوسرے کے کام آنا۔ کتنے اچھے صفات ہیں ان دونوں میں۔۔۔مگر یہ عماد اس نے تو ہمیں بدنام کر کے رکھا ہے۔
کتنی بار اس کو سمجھایا ہے کہ بیٹا سدھر جا۔ لیکن سدھر نے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔کل ہی حاجی صاحب کہہ رہے تھے عماد دن بہ دن اور بگڑتا جا رہا ہے۔نہ قرآن کی تلاوت، نہ نماز، نہ بڑوں کا احترام، نہ گھر میں ہاتھ بٹانا، کچھ بھی نہیں۔بس دن بھر بازار کے چکر لگاتا رہتا ہے، گالی گلوچ کرنا، لوگوں کے ساتھ جھگڑے کرنا، لڑکیوں کو تنگ کرنا اور سیگریٹ نوشی کرنا تو اب اس کی عادت بن چکی ہے۔۔۔۔۔اب تو جناب رات کو بھی گھر پر نہیں رہتے۔۔اللہ اس پہ رحم کرے”۔۔۔۔۔۔ اشرف میاں نے بیگم سے کہا۔اب تم ہی بتاؤ کون باپ اپنا رشتہ اس آوارہ لڑکے کو دیگا۔ پہلے بھی اس کا رشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن سب یہی کہتے ہیں کہ تمہارا بیٹا کیا کرتا ہے۔کیا کہوں میں ان سے کہ میرے بیٹے یہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔ کوئی باپ اتنا بے رحم کیسے ہوگا جو اپنی بیٹی کو ایسے لڑکے کو دینا پسند کرے گا۔المیہ تو یہ ہے اب تو جناب اللہ کو بھی برا بھلا کہنے لگا ہے۔ ۔۔۔۔(نعوذ باللہ)۔۔۔۔۔حلیمہ بیگم اُداس ہوکر اٹھی اور وضو خانہ کی اور چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔وضو کیا۔۔۔۔۔۔دو رکعت نفل پڑھی۔۔۔۔۔۔اور اللہ کے حضور ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنے بیٹے کی خاطر دعا کرنے لگی۔اےمیرے پروردگار!۔۔۔سب تعريفيں تیرے لئے ہیں۔۔۔ تو نے اپنی رحمت سے بڑے بڑے گناہگاروں کو ہدایت بخشی ہے۔۔۔تیرے سامنے یہ کچھ بھی نہیں۔۔۔ایک ماں فریاد کر رہی ہے، میرے بیٹے عماد کو صحیح راستہ دکھادے۔۔۔اُسے ہدایت دے۔۔۔حلیمہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔وہ اللہ سے دعا کرتی رہی۔
اتنے میں عماد گھر میں داخل ہوا۔اشرف میاں اپنی بیگم حلیمہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔۔۔بیگم کہاں ہو۔۔۔ تمہارا لاڈلا آج بہت جلدی گھر آیا ہے ذرا جلدی آئو اور اس کا استقبال کرو۔۔۔۔۔یہ سب سن کر عماد اپنے کمرے میں داخل ہوا اور زور سے دروازہ بند کیا۔۔۔۔ رات کا کھانا سب نے ایک ساتھ کھایا مگر عماد نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔سب نے کھانا ختم کیا اور اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔”ارے کہاں ہو یار! جلدی سے آجاؤ۔۔یار یہاں تو بہت مزا ہے”۔۔۔۔عامر نے عماد کو کال کر کے بتایا۔عماد گھر سے نکلا اور اپنے دوست عامر کے پاس چلا گیا۔
وہ بازار میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔بازار میں کوئی میلہ سجا تھا۔۔۔بہت چہل پہل تھی۔۔۔مختلف علاقوں سے لوگ آئے تھے۔۔لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد بھی وہاں تھی۔ بس لڑکیوں کو گھورگھور کر دیکھنا، اُنہیں چھیڑنا،تنگ کرنا ان کی عادت تھی۔یارذدا ایک سگریٹ دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عماد نے عامر سے کہا۔عامر نے سگریٹ عماد کو تھمادی۔دونوں نے سگریٹ پی لی اور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔عماد نے بائیک اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانہ ہوا۔۔۔۔۔۔ فون کی رنگ ہوئی۔۔۔۔۔السلام علیکم۔۔۔۔۔اشرف صاحب نے کال ریسیو کی۔۔۔۔جی اشرف انکل ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔۔آپ کون؟انکل میں عامر۔۔۔۔۔۔عماد کا دوست۔۔۔۔ہاں بیٹا بولو۔۔۔خیریت تو ہے۔۔۔۔۔جی انکل۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔عماد۔۔۔۔۔۔ہاں بیٹا بولو کیا ہوا۔۔۔۔تم کیوں ہچکچارہے ہو۔۔۔۔۔سب خیریت سے تو ہے نا۔۔۔آپ ٹھیک تو ہو نا؟عماد کہاں ہے؟ انکل عماد کا ایکسیڈنٹ ہوا۔۔۔۔وہ شہر کے ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔۔۔آپ جلدی آئیے۔۔۔۔۔اشرف صاحب نے فون رکھا اور ہسپتال کی اور دوڈپڑے۔
ڈاکٹر صاحب۔۔ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو۔۔۔سب ٹھیک تو ہے۔۔۔ اشرف صاحب نے گھبرا کر ڈاکٹر صاحب سے کہا۔جی ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔خون بہت بہہ چکا ہے۔۔حالت ابھی نازک ہے۔۔۔ عماد کے امی ابو بہت پریشان ہو چکے تھے۔۔ان کے پاس دعاء کے سوا اور کوئی بھی راستہ نہ تھا۔کچھ دیر بعد عماد زخموں کی تاب نہ لا کر دم تھوڑ بیٹھا۔۔۔کچھ دنوں کے بعداشرف صاحب اپنی بیگم کو حوصلہ دے رہا تھا، اسے سلاکر اب خود بھی سونے کا ارادہ کیا۔مگر بیٹے کی یاد بہت تڑپاتی تھی، بہت مایوس تھے۔۔آخر کار ان کی بھی آنکھ لگ ہی گئی۔
اشرف صاحب کے خواب میں عماد آیا۔ عماد بہت پریشان تھا۔بیٹا کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں ہو۔۔۔۔۔بابا میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔مجھے بچالیں، یہاں بہت اندھیرا ہے ،مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مجھ پہ سختیاں کی جارہی ہیں، مجھے طرح طرح کے عذاب دیئے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بابا مجھے بچالیں۔ بیٹا یہی وہ اصلی دنیا ہے جس کا میں تم سے ذکر کیا کرتا تھا۔میں نے کہا تھا۔۔۔۔۔بیٹا سدھر جاؤ، وہاں جواب دینا ہے۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔لیکن تم اپنی مستی میں مگن تھے۔۔۔۔۔۔۔میں اب تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ بابا پلیز! مجھے بچالیں۔۔۔۔۔میری قبر دن بہ دن تنگ ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔بابا آپ اللہ سے کہیں کہ مجھے بخش دیں۔۔۔۔بس ایک بار مجھے پھر سے دنیا میں واپس بھیج دے۔۔۔بس ایک بار۔میں اب اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔۔۔کسی کو تکلیف نہیں دوں گا۔۔۔۔۔۔لوگوں کی مدد کیا کروں گا۔۔۔۔۔بابا آپ اللہ سے کہے نا۔ نہیں بیٹا میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں اب اپنی کرتوتوں کا جواب دینا ہے اور سزا بھی اُٹھانی ہے۔
بابا دیکھو وہ آرہے ہیں مجھے لے جائیں گے اور جہنم میں پھینک دیں گے۔۔۔۔۔بابا مجھے بچالیں۔۔۔۔مجھے جہنم میں نہیں جانا۔۔بابا۔۔بابا۔۔بابا۔۔ عماد چیخ چیخ کر کہتا رہا۔۔۔ بابا مجھے پچاؤ۔۔۔۔۔مجھے جہنم میں نہیں جانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا۔۔۔جونہی عماد کو جہنم میں پھینکا گیا، اس کی آنکھ کل گئی اور چلا کر اُٹھ گیا۔ عماد کی چیخ سن کر اُس کے امی اور بابا بھی کمرے میں داخل ہوئے اور عماد سے کہنے لگے۔عماد بیٹا کیا ہوا۔تم ٹھیک تو ہونا۔
رو کیوں رہے ہو؟عماد کا پورا جسم پسینے سے شرابورتھا یہاں تک کہ کپڑے اور بسترہ بھی گیلا ہوچکا تھا۔۔۔۔امی۔۔۔بابا۔۔۔۔۔بس اب نہیں۔۔۔۔اب اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔کسی کو تکلیف نہیں دوں گا۔لوگوں کی مدد کیا کروں گا۔کسی کو گالی نہیں دوں گا۔عماد رو رو کر اپنے امی ابو سے کہتا رہا۔عماد اُٹھا اور وضو کیا۔دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے معافی مانگتا رہا؟
���
منیگام گاندربل،موبائل نمبر؛7006928384