ماں کا دودھ نوزائیدہ کیلئے مربوط اور بیماریوں سے پاک غذا شیرِ مادرنہ پلانا 90فیصد بچوں میں انفیکشن، الرجی، ذہنی و جسمانی نشو نما میں کمی کی بڑی وجہ قرار

پرویز احمد

سرینگر /وادی میں 90فیصد بچوں میں مختلف بیماریوں کی بڑی وجہ ’’ماں کا دودھ نہ پلانا ‘‘ہے۔ ماہرین اطفال کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اور جموں و کشمیر میں کی گئی کئی تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ بچوں میں طرح طرح کے انفیکشن، الرجی، ذہنی و جسمانی نشو نما میں کمی کی بڑی وجہ مائوں کا بچوں کو چھاتی کا دودھ پلانے سے پرہیز کرنا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو چھاتی کا دودھ نہ پلانا خواتین ملازمین، شہری علاقوں کی خواتین اور کام کرنے والی خواتین میںعام ہے۔ماہرین اطفال کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو فیڈر سے دودھ دینے کی کوشش ہوتی ہے ان میں زیادہ تر مختلف قسم کی الرجی اور انفیکشن کے علاوہ ذہنی اور جسمانی نشونما میں کمی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔اکتوبر 2022میں وادی کے مختلف اسپتالوں میں دودھ پلانے والی مائوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں 87فیصد بچوں کو چھاتی کا دودھ پلاتی ہیں لیکن 13فیصد ڈبے یا دیگر اقسام کے دودھ پلاتی ہیں۔ تحقیق میںکہا گیا ہے کہ 50فیصد خواتین میں چھاتی سے دودھ پلانے کی اچھی خاصی جانکاری تھی، 23.3فیصد خواتین میں درمیانہ درجہ کی جبکہ 26.7فیصد خواتین میں نوزائد بچوں کو چھاتی سے پلانے کے فوائد کی کوئی بھی جانکاری نہیں تھی۔اس لئے ان میں 50فیصد خواتین بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں۔

 

 

 

وادی کے معروف معالج اطفال ڈاکٹر قیصر احمد کول نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم خود اپنے بچوں کے مستقل کے ساتھ کھیل رہے ہیں کیونکہ ماں کا دودھ بچے کا حق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر نے بتایا ’’ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم پہلے جنم دینے والی ماں کے حوالے کرتے ہیں تاکہ ماں کی چھاتی سے لگنے سے وہ کئی بیماریوں سے پاک ہوجائے‘‘۔ ڈاکٹر قیصر نے بتایا ’’ یہ کوئی قصہ یا کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے، بچے کوپیدا ہوتے ہی ماںکو دیا جاتا ہے کیونکہ پہلے ایک گھنٹہ بچے کو ماں کے پاس رکھنا لازمی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ 6ماہ تک کے بچوں کیلئے ماں کا دودھ مکمل خوراک اور بچے کیلئے ’’ امرت ‘‘ہوتاہے کیونکہ یہ دودھ بچے کو انفیکشن، الرجی، اور دیگر بیماریوں سے عمر بھر لڑنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر نے کہا ’’ جن بچوں کو ماں کا دودھ نہیں دیا جاتا، ان میں بیماریاں لگنے کا خطرہ 400سے 500فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماں کا دودھ بچوں میں معداتی قوت بڑھاتا ہے اور اس کو انفیکشن سے لڑنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 50سال کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جو مائیں بچوں کو چھاتی کا دودھ پلاتی ہیں وہ بچے بہت تندرست رہتے ہیں لیکن جو ڈبہ بند دودھ پلانے کو ترجیح دیتی ہیں وہ بچے اکثر بیمار ہوتے ہیں اور اسپتالوں میں 80فیصد بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ بچے کو چھاتی کا دودھ پلانی والی مائیں بھی کئی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں جن میں موٹاپا ، بلڈ پریشر ، شوگر ، خون کی چربی وغیر شامل ہیں۔

 

 

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خاتون شادی کے بعد بھی خوبصورت دکھنا چاہتی ہیں تو ان کو اپنے بچوں کو چھاتی کا دودھ پلانا چاہئے کیونکہ بچوں کو چھاتی کا دودھ پلانے سے خواتین جواں دکھائی دیتی ہیں اور ہمیشہ سرگرم رہتی ہے۔ ڈاکٹر قیصر نے بتایا کہ یہی قدرت کا نظام ہے اور یہی صحیح ہے۔ ڈاکٹر قیصر احمد نے بتایا ’’ بریسٹ فیڈنگ کو بڑھاوادینے کیلئے مرکزی سرکار نے ’’ماں‘‘ نامی اسکیم کے تحت کئی اقدامات اٹھائے ہیں مگر ان اقدمات سے قبل سال 2003میں آئی ا یم ایم ایکٹ 2003کے تحت مائوں کو ڈبہ بند دودھ کی طرف راغب کرنا اور ڈبہ بند دودھ کی میڈیا، پوسٹروں اور دکانوں پر تشہر کوغیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔سرکاری ملازمت کرنے والی 90فیصد خواتین بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں جبکہ گھریلو مائوں میں صرف 10فیصد ایسی خواتین ہیں جو اپنے بچوں کا دودھ نہیں پلاتی ہیں۔ ماہر امراض اطفال کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ نہ پینے والے بچوں میں انفکیشن کی شرح85فیصد، ماں کا دودھ نہ پینے والے بچوں میںالرجی کی شرح 90فیصد اور ماں کا دودھ نہ پینے والے نوزائد بچوں میں ذہنی اور جسمانی نشو نما کمی کا 100فیصد موقع ہوتا ہے۔ اسکے برعکس چھاتی کا دودھ پینے والے بچوں میں انفیکشن کی شرح 10فیصدہے۔