ماحولیاتی آلودگی  | انسان اپنی تباہی پرمُصر کیوں؟

مقامی اور عالمی سطح پر مسلسل جنگلات کی اہمیت و افادیت اجاگر کرکے ماحول میں اس کی اہمیت باور کرائی جارہی ہے۔گزشتہ دنوں ہی ایک ویب نار کے ذریعے کشمیر کے سرکردہ ماہرین ماحولیات نے اس سنگین مسئلہ پر سیر حاصل گفتگو کی اور جموںوکشمیر میں ماحولیات کو درپیش خطرات پر مفصل روشنی ڈالی۔ زمین پر خشکی کا ایک تہائی حصہ جنگلات پر مشتمل ہے اور 1.6بلین لوگوں کا انحصار جنگلات پر ہے۔ انسان کرہ ارض پر پندرہ ملین انواع میں سے ایک ہے۔ انسان دنیا کے ان جانداروں میں سرفہرست ہے جن کی تعداد اس سیارے پر بڑھ رہی ہے۔ اکثر جانوروں اور پودوں کی آبادی میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔انسان نے ترقی کے لئے قدرتی جنگلات کا کافی بڑا حصہ صاف کردیا ہے۔ مچھلیوں کے ذخیرہ کا تین چوتھائی حصہ ختم کرڈالا ہے ،پانی کے نصف ذخائر کو آلودہ کردیا ہے اور اس قدر زیادہ زہریلی گیس فضاء میں خارج کی ہیں جو زمین کو آنے والی کئی صدیوں تک گرم رکھیں گی۔انسان نے قدرتی انواع کو فنا کرنے کا عمل قدرتی عمل سے ہزار گنا تیز کردیا ہے۔

اس طرح ہم نے خود اپنی بقاء کو خطرے سے دو چار کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ہمارے سیارے کی رنگ برنگی زندگی کو بائیو ڈائیورسٹی کہتے ہیں جو ہمیں خوراک، کپڑے، ایندھن، دوائیاں اور بہت کچھ دیتی ہے۔ ہمیں تو سڑک کے کنارے اُگتی گھاس اور کھیتوں میں پلنے والے ایک بھنورے تک کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ زندگی کے جال سے کسی ایک چیز کا خاتمہ انتہائی تباہ کن نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔جہاں تک جنگلات کا تعلق ہے تو یہ زمین پر زندگی کو جاری رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ان مرکبات کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے زمین اور فضاء کی آلودگی میں کمی آتی ہے۔ جنگلات زمین کے قریباً 30 فیصد حصے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ 2005 کے اعدادو شمار کے مطابق جنگلات چار ارب ہیکٹرسے کچھ ہی کم رقبے پر موجود ہیں۔ یہ آج سے قریباً دس ہزار سال قبل زراعت کے آغاز کے رقبے سے قریباً ایک تہائی کم ہوچکے ہیں۔ جنگلات دنیا کے ہر حصے میں کسی توازن کے بغیر موجود ہیں یہ درخت بے ترتیب انداز میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ہر سال 6 ملین ہیکٹرپر مشتمل ابتدائی جنگلات کٹائی کی وجہ سے تباہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح انسانی کی سرگرمیوں کی وجہ سے ابتدائی جنگلات کے رقبے میں ہر روز کمی واقع ہورہی ہے۔درختوں کی ایک عظیم ماحول دوست خوبی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جذب کرنا ہے۔ درخت ہر سال 283 گیگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگلات، سوکھی لکڑی، زمین اور کوڑا کرکٹ میں فضاکے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے۔ 1990سے 2005کے عرصے میں جنگلات میں کاربن کی مقدار میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ دنیا بھر میں مجموعی طور پر درختوں کی کمی میں کاربن کی مقدار میں 1.1 گیگا ٹن سالانہ کمی واقع ہورہی ہے۔ قدرتی جنگلات کی تباہی سے دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں گاڑیوں سے نکلنے والی گیس کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔جہاں تک ہماری ریاست جموں و کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھی ماحولیات اور جنگلات کے حوالہ سے خوشیاں منانے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی ہے ۔

ریاست میں جہاں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ جنگلات ریگستانوں میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں وہیں آبی ماحولیات کا حال اس سے بھی بدتر ہے ۔ڈل جھیل کی بحالی پر اربوں روپے صرف کرنے کے باوجود کوئی خاص تبدیلی نہیں آرہی ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ ڈل کا دم ابھی بھی گھٹ ہی رہا ہے تو غلط نہ ہوگا،یہی حال نگین اور ولر و مانسبل جھیلوں کا بھی ہے ۔گزشتہ دنوں ہی بتایا گیا کہ ولر جھیل کی بحالی کیلئے2ملین درختوں کو کاٹنے کی ضرورت ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دو ملین درختوں کو اگایا گیا ہے ورنہ وہ کہاں سے آتے ۔اتنا ہی نہیں ہزاروں ایکڑ زمین بھی لوگ ہضم کرچکے ہیں ۔خوشحال سر،ہوکر سر اور دیگر آبگاہیں بھی انتہائی خستہ حالی میں ہیں۔7سو کے قریب چشمے سوکھ چکے ہیں ۔واٹر ٹیبل کم ہوتا جارہا ہے ،فضائی آلودگی بڑھتی جارہی ہے ۔زمین سکڑتی جارہی ہے ،پھر خوشحال دھرتی،خوشحال لوگ کا نعرہ بھی دیا جاتا ہے۔

کشمیر جو کبھی قدرتی آب و ہوا کی وجہ سے لوگوں کی پسندیدہ جگہ تصور کی جاتی تھی ،آج غلاظت میں مانی جاتی ہے اور دوسال قبل ہی سرینگر شہر کو ملک کے چوتھے غلیظ ترین شہر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔وہ رعنائیاں کہاں رہیں گی جب قدرت کے دئے ہوئے اس انمول تحفہ کی حفاظت ہی نہ کی جائے۔جنگلی حیاتیات خطرے سے دوچار ہیں ،وجہ انسانی مداخلت ۔پہاڑوں کی چوٹیاں ننگی ہورہی ہیں ،وجہ درختوں کا کٹائو،نتیجہ بے وقت کی بارش اور برفباری و ژالہ باری اور اس پر آفت یہ کہ جنگلی جانور جیسے بے قابو ہوگئے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دن ہوگا جب وادی کے کسی نہ کسی علاقہ سے جنگلی جانوروں کے ہاتھوں انسانوں کوجاں بحق یا زخمی کرنے کی خبریں سامنے نہ آتی ہوں۔ایسے میں ہم اپنے ماحولیات پرکریںتو جواز نہیں بنتا ہے ۔وقت آچکا ہے جب حکمرانوں اور عام لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی بہبود کیلئے قدرتی ماحول کے تحفظ کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا ورنہ آنے والا وقت تباہ کن ہوگا اور ہم اس وقت اگر کچھ کرنا بھی چاہیں گے لیکن کرنہیں سکیں گے اور پھر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔اس سے قبل کہ وہ وقت آجائے،ہمیں جاگ جانا ہوگا اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سلسلہ روکنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک معتدل آب و ہوا میں سانس لے سکیں ۔