لوہڑی افسانہ

عاشق آکاشؔ

سرسبز وادیوں پر سنہرے سامراج کو سبقت حاصل ہوئی تھی۔ چنار کے درختوں سے اب سونے کے پتے جڑنے لگے تھے جن کی جدائی میں مایوس چنارکی شاخیںبے جان لگ رہی تھیں ۔چیل کؤں کے آشیانوں سے اب پردئہ فطرت اٹھ چکا تھا ۔ وہ اس بے پردگی کے ڈر سے اپنے آشیانے منتقل کرنے میں مگن تھے ۔ لوگوں نے ہمالیہ سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کی خاطر کھڑکیوں پر پالیتھین کی چادریں ڈالنی شروع کی اور نل کی پائپوں کو تھرماکول کا لباس پہننا شروع کیا۔
گاؤ خانوں کی چھتوں پر لکڑیوں کے ایسے انبار لگے ہیں جیسے کہ کسی جنگ عظیم کی تیاری چل رہی ہو۔
شہنشاہ زمستان کے سامراج کا ڈر گلی گلی ہر گھر اور ہرکوچے میں عیاں تھا۔ علی الصباح رسوئی میں اگر کچھ دیکھنے کو ملتا تو صرف کانگڑیوں کی قطاریں اور سننے کو کھانستے ہوئے گلوں کا راگ اور اس راگ میں چائے کے بدلے رائے پروسنا ہر گھر کی کہانی بن گئی تھی۔ زندگی میں جیسے جمود سا پیدا ہو گیاتھا۔
شہنشاہ کے کشمیر پر قابض ہونے کی خبر سنتے ہی یہاں کے ڈر پوک لوگ موت کے خوف اور زندگی کی محبت میں ہجرت کرنے لگے جیسے کہ مادر وطن کی الفت ہی ان کے دلوں سے نکال دی گئی ہو!!!
کہتے ہے نا ۔۔
ـــ’’بے وفا کا کوئی دھرم نہیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
مسافر گاڑیاں ان ڈر پوک اور باغی لوگوں سے کچھا کچھ بھری ہوئی ۔۔۔چھت ساز و سامان سے لیس۔۔۔ ایک کارواں کی صورت میں وادی سے نکلتی رہیں۔راجہ بیگم کو بھی اس کے بیٹے اور بہو نے ایک گاڑی میں ایسے لادا تھا جیسے کہ چاول کی بوری ہو۔ شوہر کے انتقال کے بعد گھر میں اُسے اکیلا چھوڑنے سے اس کے بیٹے افضل نے ساتھ لینا ہی بہتر سمجھا حالانکہ سکینہ پر افضل کا یہ عمل ناگوار ہی گزرا۔ لیکن افضل جورو کی تُند مزاجی دلِ ناخواستہ ہی سہی ، مگرنظر انداز کرتا رہا۔
بے چاری راجہ بیگم رام بن کی چوٹیوں تک چلاتی رہی کہ۔۔۔۔
’’ مجھے نہیں جانا ۔۔۔مجھے کاہے کا ڈر ۔۔۔۔میں ڈرپوک ہر گز نہیں۔۔۔۔میں نے تو ساری زندگی اس شہنشاہ کو اپنے جذبات کی نگری پر قابض نہیں ہونے دیا ۔‘‘
لیکن اس کی کون سنتا ۔
سب لوگ زندگی کی رنگ رلیوں کے خوابوں میں مست تھے ۔
خیر رام بن کی چوٹیاں ختم ہوتے ہی سورج کی تیز شعاؤں نے اس کی وہ چیخ و پکار بند کردی۔ وہ بھی خوابوں کے صحرامیں گُم ہونے لگی۔ شائد اس لئے کہ وہ اس موسمی فریب کی آڑ میںآگئی تھی۔
سب لوگ ٹھاٹھ باٹھ سے اچھلتے ہوئے اپنے آپ کو خالق کائنات کی بنائی ہوئی افضل ترین مخلوق سمجھ کر شہر جموں کی طرف روانہ ہونے لگے ، جیسے کہ وادی میں ٹھہرنے والے لوگوں کو فطرت نے بے رخی سے بنایا تھا ۔ لیکن وہاں وارد ہوتے ہی انہیں اس بات کا علم ہوا کہ شہنشاہ زمستان اس بار جموں کو پہلے ہی فتح کر چکا ہے اور اپنی سلطنت جما کر اب وادی بہاراں کی طرف روانہ ہوگیا ہے۔
بے چاری راجہ بیگم کو بغاوت کے الزام میں سرد ہواؤں نے اس قدر جکڑ لیا کہ اس کے خون کی روانی میں انجماد آنے لگا ۔ شہنشاہ کا مقابلہ کرتے کرتے اُس کے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے ۔ زندگی کو بچاتے بچاتے وہ ہر روز مرتی رہی۔ وہ چلاتی رہی کہ
’’ میں باغی نہیں!!!! بے وفا نہیں !!!!!!!!!!! میں تو شہنشاہ کی زندگی بھرتابع رہی ہوں ۔یہ تو حالات کے سامنے میری بے بسی کا ثمر ہے ۔ ورنہ ’میں کہاںاور وادیٗ گلزار کو چھوڑنے کی مجال کہاں!!!‘میرے خلیوں کے ریشوں میں تو وہاں کے پر کشش نظاروں کے تصاویر بسی ہوئی ہیں۔ میں ہرگز بھی باغی نہیں۔۔۔‘‘
وہ بے اختیار چیختی رہی ،،،،، لیکن شہنشاہ نے بھی اس کی ایک نہ سنی۔۔۔۔۔ اور ہر روز پو پھٹتے ہی ٹھٹھرتی سردی کے ہاتھ اس کو اپنے دبدبے کے پیغام بھیجتا رہا۔!!!
اب راجہ بیگم زندگی سے تنگ آئی تھی ۔ اُسے شہنشاہ کے خوف سے زیادہ وادی کے ان دلفریب نظاروں کی جدائی کوستی رہی۔ اس نے تو وطن واپس جانے کی امید ہی چھوڑی تھی ۔ یہ بلا ہو ساوتری کا کہ وہ راجہ بیگم کی زندگی کی شمع روشن کرتی رہی ۔ وہ اسے دلاسہ دیتی رہی کہ ہر ظلمت کے بعد اجالا ضرور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
ساوتری شیواجی نگر کی رہنے والی تھی ۔پیشے سے وہ محکمہ مال میں ایک کلرک کے منصب پر فائز تھی لیکن اس کے طور طریقے سے اس کی تربیت واضح ہورہی تھی۔ وہ ایک حلیم شخصیت کی مالک تھی۔ اس کے مکان میں تین کرایہ دار رہ رہے تھے۔ افضل کو بھی اتفاقاً ساوتری کا مکان ہی ملا تھا ۔ لیکن ساوتری نے کبھی بھی اُن کو کرایہ دار نہیں سمجھا۔ وہ اُن کو اپنے اہلِ خانہ تصور کرتی رہی اور ان کو گھر سے باہر ہونے کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ اس کی ملنساری کی وجہ سے ہی وہ راجہ بیگم سے ایسے گل مل گئی جیسے کہ وہ ایک ہی ماں کی جنی ہیں۔
راجہ بیگم کو ساوتری نے جموں آتے ہی یہ کہا تھا کہ شہنشاہ زمستان کا یہ دبدبہ مہارانی لوہڑی کے آتے ہی رفو چکر ہوجائے گا اور وہ پھر سے چین اور سکون کی زندگی گزار سکیںگے۔ راجہ بیگم مہارانی لوہڑی سے ناواقف تھی۔لیکن اپنی عزت نفس کو بچانے کی خاطر وہ کچھ دنوں تک ساوتری سے مہارانی کے بارے میں پوچھنے سے گریز کرتی رہی اور شہنشاہ زمستان کے ظلم و ستم کو چپ چاپ سہتی رہی۔ لیکن ایک دن اس کی برداشت کے آبلے پھٹ گئے اور وہ یہ گناہ کر بیٹھی۔
’’ساوتری !یہ لوہڑی کون ہے !!!میرا مطلب مہارانی لوہڑی!!!
ساوتری بھی راجہ کی سادگی کو دیکھتے ہوئے بے جھجک بول پڑی ۔۔۔۔۔
’’ ارے آپی یہ سردیوں کی مہارانی ہے اور ہر سال ۱۳جنوری کو یہاں آتی ہے اور اس کے ڈر سے سردیاں اپنی اپنی کوٹھیوں میں دم توڑتی ہیں ۔
ساوتری کا جواب سنتے ہی راجہ بیگم کے خون میں حرارت پیدا ہوگئی اور وہ انجماد ،جو شہنشاہ زمستان کے خوف سے آیا تھا، حرکت میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے سوچ کی دنیا بدلنے لگی ۔ اُس کے مزاج میں قدرے بہتری آنے لگی۔
وہ اب اُمید اور مایوسی کے درمیاں کشمکش میں مبتلا ہوگئی اور تب سے مہارانی لوہڑی کے انتظار میں روز کلینڈر کا دیدار کرتی رہی۔
���
برنٹی اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9906705778