لوگوں کی پیاس بجھے تو کیسے؟

 

گرمی میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ شہر سرینگر کے پائین اور بالائی علاقوں میں پانی کی قلت سے ہاہار کار مچنے لگی ہے۔ایک طرف آبپاشی کی چھوٹی بڑی نہروں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح کافی حد تک بڑھ چکی ہے ،دوسری جانب جس طرح پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ محکمہ آب رسانی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ اگرچہ شہر سرینگر اور بیشتر قصبہ جات میں کافی عرصہ سے پانی کی سپلائی میں کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے اور صرف صبح و شام کے اوقات میں چند گھنٹوں کیلئے پانی فراہم کیا جاتا رہا ہے، مگر ادھر کچھ عرصہ سے یہ سلسلہ بھی قائم نہیں رہ پایا اور پانی کی سپلائی کئی کئی دن تک منقطع کر دی جاتی ہے۔ پائین شہر کے کئی علاقوںمیں پانی کی قلت سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا جبکہ بالائی شہر کے عمر کالونی لا ل نگر چھانہ پورہ اور باغ مہتاب کی کئی کالونیوں کے علاوہ برزلہ سے بھی عوام نے شکایت کی کہ پچھلے کئی دن سے علاقہ کے بیشتر حصہ کے نلوں میں پانی نہیں آرہا۔یہ حیرت کا مقام ہے کہ جموں و کشمیر، جو پانی کے قدرتی ذخائر اور وسائل سے مالامال ہے اور سیاسی قائدین اور مفکرین تک، ان وسائل کو جموںوکشمیر کی معاشی آزادی کی بنیاد گردانتے ہیں، کے اندر پانی کیلئے یہ ہاہاکار مچی ہوئی ہے اورعوام کوزندگی گزارنے کی اس بنیادی ضرورت کی قلت کا شدید سامنا ہے۔ ندلی نالوں میں سطحِ آب میں خاطر خواہ اضافہ کے باوجود پانی کی قلت اس امر کی چغلی کھاتی ہے کہ صاف پانی کی تقسیم کاری کانظام خامیوں کا شکار ہے اور اسے جدید ضروریات اور موثر بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

 

انتظامیہ کی طرف سے قلت کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اگرچہ کچھ بستیوں میں ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاہم ضروریات کے مقابلے میں یہ کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گزشتہ چند روز سے شہر کے اندر اور اس کے قریبی مضافات میں لوگ تپتی دھوپ میں سڑکوں پر بالٹیاں ہاتھوں میں لئے پانی کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کئی دیہات میں تو لوگ اس غرض سے میلوں کی مسافت طے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں کئی لوگوں کو ندی نالوں کے ناصاف پانی کے استعمال پر اکتفا کرنا پڑتا ہے، جو بعد ازاں بیماریوں کی افزائش پر منتج ہو کر دوہری پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔ اخبارات میں ان حوالوں سے اگرچہ آئے دن رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ محکمہ خوابِ خرگوش میں ہے اور ذمہ دار افسران کو عوام کی اس شکایت کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنے کیلئے فرصت میسر نہیں آتی۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف گھریلو صارفین پر پانی کے فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا تودوسری جانب پانی کی سپلائی کے معیار میں بتدریج تنزلی آرہی ہے۔لوگ آبیانہ ادا کرنے کے ضرور مکلّف ہیں اور یقینی طور پر انہیں اس سروس کے عوض فیس ادا کرنی چاہئے جو انہیں حکومت فراہم کررہی ہے تاہم متعلقہ حکام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صارفین کو معیاری سروس بھی فراہم کرے۔جہاں تک پانی کی سپلائی کا معاملہ ہے تو چونکہ اس کا براہ راست تعلق انسان کی بنیادی ضرورت سے ہے تو یہاں حکام کو اور بھی زیادہ چاک وچوبند اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو حاصل کرنے کیلئے انہیں دردر کی ٹھوکریں نہ کھا نا پڑیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ متعلقہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں تساہل برت رہا ہے۔

 

گرمیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی پانی پر ہاہا کارمچ جانا چونکہ معمول بن چکا ہے لہٰذا حکومت کیلئے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ گرمی کے سیزن میں ضروریات کو پورا کرنے اور تقسیم کاری میں بہتری لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں ،تاکہ عوام کو زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے محرومی کا سامنا نہ رہے۔ جموںوکشمیرانتظامیہ چونکہ عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے کی وعدہ بند ہے، لہٰذا اسے پانی کے وسائل و ذخائر کے تحفظ اور دوران ِترسیل و استعمال اس کے اس کا ضیاع روکنے کے اقدامات کی نشاندہی کرنے، نیز تقسیم کاری کے نظام کو مزید مؤثر اور پختہ بنانے کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چاہئے ورنہ 2022تک ہر گھر جل نل کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔ جب تک یہ امور طے پاتے ہیں،اُس وقت تک عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی کے عمل کو وسعت دے دی جائے۔