لذت کی نمائش اور ہمارا فکر وعمل میری بات

شہباز رشید بہورو
من کی دنیا عجیب ہوتی ہے۔اس میں جو کچھ بھی ہونا ہے وہ نفس کی شہہ پر ہونا چاہئے، ورنہ اندر ہی اندر ایک ہنگامہ رونما ہونے کا امکان رہتا ہے، جس کا مقابلہ کرنا کار گراں سے کم نہیں۔نفس کی شہہ رگ انسانی خواہشات میں پوشیدہ لذتیں ہیں جو قلب و ذہن پر حیرت انگیز انداز میں موئثر ہیں۔لذت نفسِ انسانی کی چہیتی شئہ ہے جس کو وہ کسی بھی قیمت پر بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا بلکہ اس کے اشاروں کے تحت سب کچھ حاصل کرنے کا زوردار مطالبہ کرتا رہتا ہے،اس کے حکم پر سب کچھ کر گذرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور لذت کی تسکین کے لئے انسان کے وجود میں موافق کردار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔حالانکہ کردار کشی کے لئے غیر معمولی ذریعہ کشف درکار ہے لیکن ایک غیر مرئی لذت انسان کے اندرون میں ایک دوسرا داخلی آفاق تخلیق کرتی ہے ،جس کی نمائش و دلربائی انسان کو ایک خاص کردار کا حامل بنا لیتی ہے۔انسان کے انفس کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے انسانی وجود کے اندر ایک داخلی آفاق کا مدمقابل کھڑا ہونا سب لذت کا کمال ہے۔لذت کا احساس انسان کے اندر ایک نئی دنیا تخلیق کرتی ہے اور اس میں شب وروز گذرواتی ہے، اسطرح سے گویا ایک خیالی دنیا کا مکین بنا لیتی ہے۔روز مرہ کی زندگی میں بھی ایک انسان جب کسی چیز کو چاہنے لگتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے وہ ویسا ہی کردار اپناتا ہے جو اس کی مطلوبہ چیز کو سنبھال سکنے کے لئے کارگر ہو۔المختصر لذت کی تاثیر سے اُبھرنے والے زوردار مطالبے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک انسان کے اندر مختلف کردار پیدا ہونے لگتے ہیں ۔انسان کی شخصیت میں فرعونی، نمرودی، قارونی اور ابو جہلی ولہبی کردار ارتقاء پذیر ہوتے ہیں ۔ایک بات یاد رہے کہ میں لذت کے احساس کا کلی طور پر منکر نہیں ہوں بلکہ میری بات لذت کا حدود سے باہر نکل کر اپنا رول ادا کرنے کے نتیجے میں جو کچھ ناہموارگی حیات انسانی کے نظام میں ہوتی ہے کےمتعلق ہے۔لذت کی تکمیل میں ہر کام کرنے کے نتیجے میں انسان کے اندر انسانیت سمٹ سمٹ کر ابلیسیت کے نقطہ آغاز تک پہنچتی ہے، جہاں سے پھر وہ ایک ایک منزل طے کرتے کرتے حیوانیت کے عروج کو پہنچتی ہے اور جس مقام پر ایک انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا کیونکہ ایک حیوان کے اندر لذت کا حصول ، خواہشات کا مطالبہ اور جسیم جسم کا وار بس یہی تین عمل ہیں زندگی کے۔اگر یہی تین افعال ایک انسان کی زندگی کی پہچان بن جائیں تو بھیڑئے اور انسان میں سر مو بھی اختلاف نہیں ۔مذکورہ بالا کرداروں میں یہی کچھ دیکھا جاسکتا ہے۔

لذتِ حیوانی کے مقابلے محرکہ اختلاف (Opposing motive) کے طور پر روحانی تسکین کا حصول ہوتا ہے، جس کے مطالبات براہ راست دل و دماغ کی صحت پر اپنا ایک الگ اور منفرد اثر رکھتے ہیں ۔ہر دور میں دل و دماغ کے سکون کی خواہش کا اظہار ہر ذی شعور انسان نے کیا ہے اور اسی چیز کے لئے انہوں نے مختلف طور طریقے اپنائے ۔کسی نے جنگل و صحرا کا راستہ لیا، کسی نے آگ کا طواف کیا، کسی نے فاقہ کشی اختیار کرلی، کسی نے پتھروں کی پوجا پاٹ کی اورکسی نے مراقبہ کی نوعیت کے افعال شروع کئے ۔ ان تمام راستوں کو اختیار کرکے وقتی طور پر وہ ذہنی اطمینان محسوس کرنے لگے لیکن مستقل ذہنی چین سے کوسوں دور رہے۔ان افعال کا رول ایک پین کلر کی طرح ضرور رہا لیکن ایک مستقل علاج کے طور وہ کبھی بھی نام کما نہ سکے۔اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی اکثریت نے لذت کی پیاس بجھانے کو ہی ذریعہ سکون سمجھا لیکن اس کے نتیجے میں انھیں مزید بدامنی کا شکار ہونا پڑا۔لذت کی تسکین بدن کو وقتی طور پر چین نصیب کرتا ہے لیکن روحانی طور پر انسان کو مفلوج بنا کے چھوڑتا ہے۔

موجودہ دور میں مذہب کی تاریخ کے ابواب میں ایک انوکھا قسم کا مواد بھرا جارہا ہے جو مذہب کے تمام اصول و ضوابط کے برخلاف ہے۔وہ مذہب کےاصلی مواد (contents) کے بدلے صرف اخلاقیات کے مواد پر مبنی ہے اور اب المیہ تو یہ ہے کہ اخلاقیات بھی اپنا مفہوم تبدیل،اپنی ساخت بگاڑ نے، اپنا وجود معدوم کروانے کی زد میں ہے تاکہ اس کی جگہ ایک نیا موضوع جنم لے سکے، جو انسان کو جھوٹی تسلی دے کر اسے جانوروں سے بھی بدتر بنا دے۔انسان نے پہلے ہی حد ہی کردی تھی کہ وہ دین مبین ،دین القیم یا سنکسرت کے الفاظ سناتن دھرم کے دائرے سے نکل کر مذہب کے دائرے میں اپنی روحانی دِل بہلائی کر رہا تھا جہاں پر اسے الله کی گرفت سے بچنے کا ایک بہترین بہانہ حاصل تھا ۔خیر اس بہانے میں ہی سہی لیکن انسان چند اخلاقی اقدار کا پابند ضرور تھا لیکن اب اس دائرے سے نکل کر وہ نام نہاد اخلاقیات کے دائرے میں آچکا ہے جہاں پر وہ حرام کام بڑے پیار اور خود ساختہ اخلاقی لباس میں ملبوس ہو کر کر رہا ہے۔ مثلاً آج کے دور میں فحاشیت کو پھیلانے والے لوگوں کو میڈیا پر لا کر بڑا ہی سخی اور وسعت النظر شخصیات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔صد افسوس کہ ان ہی قسم کے لوگوں کو عوام کا ہیرو یا رول ماڈل بنایا جارہا ہے۔فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کا دور جدید میں سو فی صد فحاشیت، اباہیت و عریانیت پھیلانے کا رول ہے لیکن ان لوگوں کو تو دنیا کی اکثریت اپنے آنکھوں پر بٹھائے چلی جارہی ہے۔انہوں نے جو مذہب کا مفہوم بیان کیا ،اسی مفہوم کو مانا جاتا ہے۔یہ لوگ مرد و زن کے پیار کو ہر زاویے سے اچھا ، بہادری اور کامیابی کے کام کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔نئ نسل کو اس نوعیت کے تمام غیر اخلاقی افعال کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔انھیں زنا کرنے کے خوبصورت طریقے سکھائے جارہے ہیں، شراب پینے کا اسٹائل سکھایا جاتا ہے، قتل و غارت، ڈکیتی، زنابالجبر کرنے کے سارے طریقے سکھلائے جاتے ہیں ۔یہ سارے افعال لذت کی قوی نمائش ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔