قربانی عبادت ہے،نیت کو خالص کرلو

فہم وفراست
عمران بن رشید
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جونہ صرف یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کامکمل احاطہ کرتا ہے بلکہ انسانی زندگی سے متعلق ہر مسلے کا منصفانہ اورحکیمانہ حل بھی پیش کرتا ہے۔اسلام قول اور فعل ہر دو کو محیط ہے یعنی آپ کو ہر چیزکے اقرار کے بعد اُس پر عمل پیرا بھی ہونا ہے،اللہ کے رسول حضرت ِمحمد ؐ کی مشہور حدیث ہے ’’انماالاعمال بالنّیّات الخ‘‘یعنی ہر عمل کا دارومدارنیت پر ہے ۔ یہ حدیث صحیح البخاری کی پہلی حدیث ہے جسے عمرِ بالخطابؓ نے روایت کیاہے۔ اس حدیث سے عمل میں اخلاص کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی خبر ملتی ہے کہ اسلام عمل سے منسلک ہے، جس کے بعد ہی انسان کی نیت وارادہ (Intention)دیکھا جائے گا۔گویا عمل کے میدان میں سرگرم اور ثابتِ قدم رہنا ہی اسلام اور مسلمان کی پہچان ہے۔یاد رہے کہ ہر عمل کے پیچھے محنت و مشقت اورایثارو قربانی مطلوب ہے،یہ قربانی جسمانی بھی ہوتی ہے اور مالی بھی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعلیٰ نے مسلما ن کا مال اور اس کی جان خریدی ہے جنت کے بدلے ’’اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُم وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَالخ‘‘بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور اُن کے اموال خرید لئے ہیں، اس چیز کے بدلے کہ یقیناً اُن کے لئے جنت ہے[التوبہ؍111]۔
اوپر کی سطور سے معلوم ہوا کہ ہر عمل کے پیچھے محنت و مشقّت اورایثارو قربانی مطلوب ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ قربانی جسمانی بھی ہوتی ہے اور مالی بھی۔ عید الاضحی کی قربانی اسی قبیل سے ہے،جس میں جسمانی اور مالی ہر دو طرح کی قربانی ہے۔ ’’اضاح‘‘کے لغوی معنی ہی قربانی کے ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کے لئے سال میں دو عیدیں مقرر کی ہیں ۔ ایک عید الفطر اور دوسرے عید الاضحی۔قبل از اسلام یعنی دورِ جہالیت میں بھی عربوں کے یہاں سال میں دو خوشی کے دن مقرر تھے،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ وہ دو دن ’’یومِ نیروز‘‘اور ’’یومِ مہرجان‘‘تھے [حجۃ اللّٰہ البالغہ]۔حافظ ابن قیمؒ کہتے ہیں کہ ’’اسلام سے پہلے مشرکین زمانی اور مکانی دونوں قسم کی عیدیں منایا کرتے تھے ۔اسلام نے آکر ان سب کو باطل قراردیا اور ان کے بدلے عید الفطر اور عید الاضحٰی کی صورت میں زمانی عیدیں دیںاور بیت اللہ میں مزدلفہ اور عرفہ کی صورت میں مکانی عیدیں دیں ‘‘۔ [شرح کتاب التوحید از عبداللہ ناصررحمانی؍309 ]۔ان میں سے اولالذکر شوال کی پہلی تاریخ کو اوردوسری زمانی عید ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو آتی ہے۔اس روز یعنی عید الاضحی کے روز اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے جانوروں کی قربانی سرانجام دی جاتی ہے۔گوشت کو گھر گھر تقسیم کیا جاتا ہے۔لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قربانی حصولِ تقویٰ کے لئے ہے ،اس میں کسی بھی طرح کی ریاکاری اور دیکھا دیکھی نہ ہو ۔اللہ تعلی فرماتا ہے ’’لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَائُ ھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوَیٰ مِنکُمْ‘‘اللہ کے پاس قربانی کا گوشت پہنچتاہے اور نہ اُن کا خون لیکن پہنچتا ہے صرف تم لوگوں کا تقویٰ[الحج؍37]۔گوشت اور خون کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعلی نے تقویٰ پر زور دیا ہے ۔عربی زبان کا قائدہ ہے کہ جب کسی ایک چیز کی اہمیت کو واضح کرنا ہو تو یوں کیا جاتا ہے کہ پہلے دوسری چیزوں کی نفی کی جاتی ہے پھر اُس ایک چیز کا اثبات ۔وہی قائدہ مذکورہ آیت میں آیاہے کہ گوشت اور خون کی نفی کی گئی پھر تقویٰ کا اثبات، جس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ تقویٰ ہی قربانی کی اصل ہے۔حصولِ تقویٰ کے لئے لازم ہے کہ عمل میں حرام کاری اور خلافِ شرع کوئی چیز نہ ہو،وہ قربانی جو حرام مال سے کی جائے،جس میں سود کی آمیزش ہو ،دھوکہ دہی ہو،ریاکاری ہو قطعاً ربّ کے یہاں قبول نہیں(ہابیل اور قابیل کا قصہ اس پر دلالت کرتا ہے)۔ہر قسم کی عبادت اللہ کے لئے خالص ہے ۔ سورہ البیّنہ کی ایک آیت ہے ’’وماامرواالالیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء الخ‘‘اہل کتاب کو حکم نہیں دیا گیا تھا صرف اس چیز کا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اور دین کو اسی کے لئے خالص رکھیں یکسو ہوکر[البینۃ؍5]۔
ہر عبادت کی طرح قربانی اور باقی قسم کے ذبیحے خالص اللہ کے لئے کئے جانے چاہئے۔ وہ قربانی یا ذبیحہ جو غیر اللہ کی خوش نودی کے لئے کیا جائے ،مزارات پر کیاجائے یا کسی مخصوص مقام پر کیا جائے حرام ہے ۔حدیث کے الفاظ ہیں ’’لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِاللّٰہَ‘‘ [مسلم؍1978] یعنی اللہ کی لعنت ہو اُس پر جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے۔ سورہ المائدہ کی ابتداء میں ہی اللہ تعلی نے فرمایا ہے کہ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار،خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر کہ غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو،اور گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی چوٹ لگنے سے مرگیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرگیاہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے اگر تم(مرنے سے پہلے)ذبح کرلو تو حرام نہیں ۔ اس کے بعد فرمایا ’’وما ذبِحَ علی النُصب‘‘اور وہ بھی(حرام)کیا گیا جو کسی آستانے پر ذبح کیاگیا ہو[المائدہ؍3]۔نُصُب سے کیا مراد ہے ؟مشرکینِ عرب بتوں کے سامنے پتھریا کوئی دوسری چیز نصب کرکے ایک خاص جگہ مقرر کرتے تھے ذبیحہ کے لئے ،اُسے نصب کہا جاتا تھا[تفسیر احسن البیان]۔ مختصر یہ کہ باقی ہر عبادت کی طرح قربانی بھی محض اللہ کے لئے ہے ۔اس میں قول وفعل اور ارادہ تینوں چیزیں شامل ہیں ‘یعنی قربانی قولاً بھی اللہ کے لئے ہو،عملاً بھی اللہ کے لئے ہو اور قصداً بھی یعنی اس میں نیت بھی اللہ ہی کے لئے خالص کی جائے۔اللہ تعلی کا ارشاد ہے ’’فَصَّلِ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘ آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے[الکوثر؍2]۔ابن تیمیہ ؒ نے نماز اور قربانی کے حوالے سے بہت ہی عمدہ بات کہی ہے۔کہتے ہیں کہ یہ دونوں عبادتیں قرب‘تواضع اور افتقار واحتیاج کامظہر ہیں‘نیز اللہ تعلی کے ساتھ حسنِ ظن‘قوتِ یقین اور طمانیتِ قلب کی دلیل ہیں[بحوالہ شرح کتاب التوحیداز عبداللہ ناصر رحمانی]۔یہاں پرسورہ انعام کی وہ آیت بھی آپ کے گوشِ گزارکردوں جو اس ضمن میں قدرے مشہور ہے ’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘آپ کہہ دیجئے کہ بے شک میری نماز ‘میری قربانی ‘میرا جینا اورا میرا مرنا یہ سب اللہ کے لئے ہے جو سارے جہاں کا ربّ ہے[انعام؍162]۔ ’نُسُک‘‘کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔سعید بن جبیرؒ اور ضحاکؒ کے نزدیک نسک سے مراد ہر طرح کا ذبیحہ اور قربانی ہے اور مجاہد ؒ کے نزدیک اس سے مراد وہ قربانی ہے جو حج یا عمرہ کے وقت سرانجام دی جاتی ہے [حوالہ شرح کتاب التوحیداز عبداللہ ناصر رحمانی]۔
مختصر یہ کہ قربانی ایک عبادت ہے ۔لہٰذا اس میں نیت کا خالص ہونا لازم ہے،مال کا پاک ہونا لازم ہے اور شریعت کی پابندی بھی لازم ہے ۔ کوئی بھی چیز جوذرابھر بھی شریعت سے مخالف ومتصادم ہو وہ ضائع ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان قربانی کو لیکر غلو اور بدعات کا شکار ہوتے ہیں۔حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا’’ مَنْ اَحَدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ‘‘[ صحیح البخاری۔2697]یعنی جس نے ہمارے اِس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو دین میں نہیں تھی، وہ مردود ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں کچھ لفظی تبدیلیوں کے ساتھ یوں آئی ہے’’ مَنْ عَمَلَ عَملاََ لَیْسَ عَلَیہ اَمْرِنَا فَھُوَرَدٌ ‘‘[مسلم۔1718 ]’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر یعنی حکم موجود نہیں ،تو وہ عمل مردود ہے ۔‘‘یہ حدیث معنًی متواترہے۔یعنی مختلف لفظیات کے ساتھ آئی ہے جبکہ معنی اور مفہوم میں برابر ہے۔اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے ہر اُس عمل کو مردود کہا ہے جس میں آپؐ کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ ایسے عمل سے متعلق ایک دوسری صحیح حدیث میں ’’بدعت‘‘ کا لفظ آیا ہے ’’اِنَّ خَیْرُالْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَالْھَدْیِ ھَدیُ مُحَمَّدَ وَشرَّالْاُمورِمَحَدَثَا تُھَا وَکُلُّ بِدَعَۃٍ ضَلَا لَۃٌوَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘یعنی بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ محمدؐ کا راستہ ہے۔اور بدترین باتیں دین میںنئی نکالی ہوئی باتیں ہیں اور دین میں ہر نئی بات(بدعت)گمراہی ہے اور (ایسی)ہر گمراہی آگ یعنی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔یہ حدیث صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی چند دیگر کتابوں میں بھی آئی ہے۔
(سیرجاگیرسوپور‘کشمیر،رابطہ۔8825090545)