قربانی۔اِخلاص عطر بیز ،رِیا ہلاکت خیز فکر و ادراک

بشارت بشیر

 

عید الاضحی کی آمد میمون میں بس اب چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں ،اور اس کی آمد اُس مردِ جلیل و جمیل کی یاد کچھ زیادہ ہی تازہ ہوجاتی ہے جس کی راہ حق میں قربانیوں کے چرچے تازیست کائنات ارضی اور آسمانوں میں ہوتے رہیں گے ۔عراق کے شہر اُرؔ میں ایک بُت گر و بُت  سازوبُت پرست کے گھر میں پیدا ہونے والے ابراہیم ؑ نے آفتاب و ماہتاب، نجوم و کواکب اور دیگر ہزاروں معبودانِ باطل کے آگے سجدہ ریز ہونے والے معاشرہ و سسٹم کے خلاف یکہ و تنہا علم بغاوت بلند کیا تو کیا خاندان ،کیا اقرباء و اعزہ ،کیا معاشرہ و سماج سارا نظام ہی درپے آزار بن گیا لیکن جان آفرین کی دی ہوئی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے مستانہ وار ہر وار سہتے ہوئے غلغلۂ توحید کرنے کے عمل سے تھوڑی دیر کے لئے بھی نہیں رُکا ،اور نہ قدم لرزیدہ ہوئے ۔بر افروختہ باپ کو سمجھانے کے لئے کتنا حکیمانہ اسلوب اختیار کیا ،ادب و احترام کے سارے پہلو بھی ملحوظِ نگاہ رکھے لیکن اُس کے دل کا زنگ تھا کہ کافور ہی نہیں ہوا تو معروف طریقے پر اس سے اعراض کیا ۔معاشرہ اس کے خلاف برسرِپیکار ہوا ،کڑوے کسیلے جملے کسے،پھبتیاں کسیں ،طعنے دئیے ،نوکیلے پتھروں کا آزادانہ استعمال ہوا ، طنز و واستہزا کے تیرو نشتر چلاتے گئے لیکن اللہ کی محبت میں مست و محو بندہ تھا کہ کسی گالی اور دشنام سے قطعاً بے مزہ نہ ہوا اور یہی صدائے حق دیتا رہا کہ میں نے ہر مخلوق سے منہ موڈ کر زمین و آسمان کے خالق و مالک کی جانب اپنا رُخ کردیا ہے اور اس رُخ کو ساری دنیا ایک ہوکر بھی تبدیل نہیں کرسکتی ،پھر دنیا ئے دَھر نے دیکھ لیا کہ اُس کے اعلان حق سے اقتدا رکی جبین پر بل توپڑگئے مگر توحید کی نغمہ سرائی میں کوئی فرق واقع نہ ہوا ،نار ِنمرود میں جھونکنے کا ہوش رُبا اعلان ایوان اقتدار سے ہوا تو خندہ پیشانی سے اس سزا کو نہ صرف قبول کرنے کا اعلان کیا بلکہ پورے وقار کے ساتھ دھکتی آگ میں چلا گیا اور پھر تکریم و تعظیم کے ساتھ صحیح و سالم نکل آیا ۔دنیا حیرت زدہ تو ہوئی لیکن ملغوف دلوں کو ہدایت کے لئے کھلنا نہیں تھا نہیںکھلے ،پھر بھی آمادۂ آزار ہی رہے۔میری نماز ،میری قربانی ،میرا جینا میرامرنا صرف اللہ کے لئے کا اعلان فرما چکے تھے اس کی لاج رکھنی تھی تو وطن مالوف سے چلے گئے ،فلسطین ،مصر ،شام ،اردن کی خاک چھانی اور ہر جگہ لا الہ ٰالااللہ کا نعرہ مستانۂ ہی پیشہ بنا رہا ،بڑھاپے میں خالق نے اسمعٰیل ؑ جیسا حسین و خوبصورت بیٹا دے دیا ۔جوان ہوا تو قربانیوں کا سلسلہ اس بات پر منتج ہوا کہ اب اِسے راہ حق میں قربان کرکے دکھا ،اعلان پہاڑوں نے سُنا ہوتو پسیج گئے ہوں گے ،شجر و حجر کانپ اُٹھے ہوں گے۔ لیکن صبر و ایثار کے اس پیکر نے میدان میں لاکر لاڈلے کے حلقوم پر چھری رکھ لی اور کہا میراہی ہے کیامولا تیری ہی یہ امانت ہے۔ بوڑھے باپ کے حکم کی تعمیل کا یہ انداز اور سعادت مند بیٹے کی اطاعت و فرمانبرداری کی یہ مثالی مثال اب تک دنیا ئے گردوں کی نگاہوں سے گزری ہی نہ تھی ایسا لگ رہا تھا کہ نبض ِ کائنات رک گئی ہے اور حجر و شجر ششدر و حیران ،خالق کو یہ انداز محبت اس قدر بھایا کہ مقدس ہاتھ روکنے کا حکم ملا ،سند کامرانی عطا ہوئی اور ایک جانور کی قربانی کا ارشاد ہوا۔

 

یہی سلسلہ ساڑھے پانچ ہزار برس سے ملتِ خلیلی میں چل رہا ہے اور اس شعار میں جان اس ابراہیمؑ کی دعائوں کے ثمر نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈال دی ،پورے تسلسل کے ساتھ یہ عمل جاری ہے عالم اسلام میں،اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان قربانیوں کے بارے میں جب سوال کیا گیا ،جواب ملا کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے ۔مختصر جواب مگر جامعیت لئے ہوئے کہ اِسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ قربانیاں دراصل اس بات کی علامت ہیں اور اصل ایمان جانور کے حلقوم پر چھری رکھ کر اعلان کرلیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس دین کی ترویج و اشاعت و توحید کے فروغ و پھیلائو کے لئے ہر قربانی و ایثار کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے ،قربانیوں کا یہ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ عمل تقویٰ سے لبریز ہو اور دکھاوا ،نمائش اور ریا ء کا اس میں شائبہ تک نہ ہو ۔ریا کاری اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے ،چونکہ ریا کا مقصد ہی دوسرے کو خوش کرنا یا اُس کی نگاہوں میں اپنے کو پارسا اور پسندیدہ بنا ناہوتا ہے اس لئے قرآن و سنت نے اِسے شرک کے زمرے میں شامل کیا ہے جو زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلے مقدس الفاظ میں ایسا ہی ہے جیسے سیا ہ را ت میں سیاہ چٹان پر ایک سیاہ چیونٹی رینگ رہی ہے ۔ظاہر ہے یہ دِکھے گی نہیں، اسی طرح یہ ریا بھی اندر ہی اندر انسانی عبادات کے محل کودھڑام سے گرا دیتا ہے اور مسلمان کو پتہ بھی نہیں چلتا ،قربانیاں جی جان سے دی جائیں ،ایک یا ایک سے زائد انسان جتنی چاہے دے دیں لیکن للٰہیت مقصود ہو،سگے سمبندھیوں کی خوشی ملحوظ نگاہ نہ ہو ،معاشرہ میں ناک اونچی دکھانا مقصود نہ ہو،اگر کسی نے دو قربانیاںدیںتو میں اس نیت سے تین یا اُس سے زیادہ بھی جانوروں کی قربانیاںدوںکہ اُس سے زیادہ میری امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کا اظہار ہو تو سمجھ لیجئے کہ قربانی اکارت گئی اور اب یہ للہ نہیں بلکہ للناس بن کے رہ گئی۔

ہاں! کوئی ایک سے زائد قربانیاں بھی دے اُس میں بھی کوئی حرج نہیں ایک موقع  یعنی حجۃ الوداع کے دن آپ ﷺ نے خود 63 اونٹ اور باقی حضرت علیؓ سے ذبح کرواکر سینکڑہ پورا فرمایا ۔ اس لئے ایک سے زیادہ قربانیوں کو  روکا ٹوکا نہیں جاسکتا لیکن فخر و مباحات ، نمود و نمائش اقرباء کی تحسین مقصود ہو یا خواجہ کہلانے کا شوق ہو تو پھر قربانی کرنے کا یہ خیال محض دل کا بہلاوا ہی ثابت ہوگا۔ ایک سے زیادہ قربانیاں درست لیکن سال بھر کیا نفلی صدقات کرنے پر بھی کمر بستہ رہتے ہیں اور کیا اپنے اموال کی پوری زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں۔ اس کا حساب کتاب بھی کرنا ہوگا۔

ا ب تو یہا ں ایک نیا سلسلہ چل پڑا  ہے کہ قربانی کے جانوروں کے ساتھ بھی سیلفیاں لینے کا عمل شروع ہوا اور پھر اس تصویر کو وائرل کرنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگی ،کہاںوہ سن ِ رسیدہ خدا کا فرستادہ اپنے لاڈلے کو راہ حق میں قربان کرنے پر نہ صرف آمادہ بلکہ اس عمل کی قبولیت کے لئے بھی دیدہ گریاں اور کہاں ہمارا یہ طرز عمل کہ اس عظیم عمل کو بھی تماشا بناکے رکھ دیا ہے ۔نہ دلوں میں کوئی اثر ،نہ وجود پہ کوئی کپکپاہٹ نہ حصول تقویٰ کے لئے کوئی کوشش۔اللہ بچائے کہیں ہم بھی ’’مرض ریا ‘‘میں مبتلا تو نہیں ۔اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو پھر ہم بدلنے کی فوری خُو اپنے اندر ڈال لیں ،خالق نے تو خود فرمایا کہ جانور کا گوشت اور خون تو اُس کے یہاں نہیں پہنچتا صرف تقویٰ دیکھنا مقصود ہے یعنی کیا دل کی دنیا راہ حق میں ہر قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوئی ،اللہ دیکھ رہا ہے کا تصور کیا قلوب میں کاجاگزیں ہوا ۔دل کا بدلنا ہی تو مقصود ہے ،زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بار بار سنُتے پڑھتے ہیں کہ تمہارے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے یہ صحیح و سالم ہے تو سارا وجود صحیح وسالم ہے یہ بگڑ گیا تو وجود بگڑکے رہ گیا ۔

حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گردن جھکائے بیٹھا ہے گویا یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ’’میں بڑاپارسا ہوں‘‘سیدنا عمر ؓ نے فرمایا :اے ٹیڑھی گردن وا لے!اپنی گردن کو سیدھا کرلے کہ خشوع و خضوع کا مقام دل ہے نہ کہ گردن۔حضرت ابو امامہ ؓ نے ایک شخص کو مسجد میں بحالت سجدہ ریز اور گڑ گڑاتے ہوئے دیکھ لیاتو فرمایا:اے نیک بخت !یہ جو کچھ تو لوگوں کے سامنے مسجد میں کررہا ہے ،اگر اپنے گھر میں کرلیتا تو تیرا جواب ہی نہ تھا (یعنی تو انمول بن جاتا )۔کسی شخص نے حضرت سید بن مسیب ؓ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور ثواب حاصل کرنے کے لئے اور لوگوں سے اپنے لئے تعریفیں وصول کرنے ، صدقہ و خیرات کرنے والے شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو آپ ؓ نے فرمایا :کہ اسے جو کچھ کرنا ہے صرف اللہ کے لئے کرے یہ اللہ اور مخلوق دونوں کو یک جا کرنا کیسا ؟سیدنا علی ؓ نے ریا کار کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں:(۱) تنہائی میں سست ہوتا ہے (۲)لوگوں کو دیکھ کر خواہ مخواہ مسکراتا اور خوش ہوتا ہے (۳) اپنی تعریف سن کر زیادہ عمل کرتا ہے اور بُرائی سن کر کم عمل کرتا ہے ۔

قربانیوں کے حوالے سے ایک تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ قربانیاں کرنے کے بعد اُن کا فضلہ ، بول و براز او ردیگر چھوڑنے لائق مواد بیچ چوراہوں ، سٹرکوں یہاں تک کہ ہمسایوں کے دروازے کے سامنے ڈال دینے سے بھی اجتناب نہیں کرتے ، اور نہیں جانتے کہ ماحول کو کثافت سے آلودہ کرنا انسانیت کو تکلیف دینا اور ہمسایہ کو عزیت دیناکس قدر سنگین جرم ہے اس لئے اس عادت ِ قبیحہ سے پرہیز کرتے ہوئے اِن اشیاء کو محفوظ مقامات پر ٹھکانے لگایا جائے۔

حاصل گفتگو یہ ہے میرے معزز قارئین !کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی سبھی عبادات میں اخلاص مطلوب ہے اور ریا کاری کا ہلکا عنصر بھی اس میں داخل ہو تو یہی عادت وبال بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔آج جب ہمیں پھر ایک بار قربانیاں دینے کا زرّیںموقع فراہم ہورہا ہے،آیئے اخلاص کے پانی سے اِسے سرشار کریں ،تقویٰ کا حصول مقصد ہو اور راہ حق میں ہمہ وقت مستعد رہنے کا عزم۔قربانی کے جانوروں کو مہندی لگانا ،پھر ان کے سامنے اسبند جلانا ،مبارک سلامت کی صدائیں ،یہ تو روحِ شریعت ہے ہی نہیں۔قربانی دیتے وقت مختلف پوزِز کے ساتھ تصویریں بنانا اور پھر انہیں وائرل کرنے کا کام شروع کرنا ہماری کج فہمی کی دلیل اور روحِ دین سے نابلد ہونے کا اظہار ہی ہے ،واحسرتا!!

آیئے آج بدلنے کا عہد کریں اور عملاً اس بات کا اعلان کریں’’ میری نماز ،میری قربانی ،میرا جینا مرنا ،بس اللہ کے لئے ہے ۔‘‘ ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہوئے تو ہر کامیابی دہلیز پر ڈیرہ ڈال دے گی ۔اختتام اس دعا کے ساتھ کہ اے اللہ! ہمیں ہر جھوٹ،شرک اور رِیا سے محفوظ و ماموں رکھ ۔آمین

(رابطہ۔7006055300)