قربانی:سنتِ نبویؐ کی روشنی میں فکر انگیز

الحاج ابوالبرکات

قربانی حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے جو اس اُمّت کے لیے باقی رکھی گئی۔’’قربانی‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جو ’’قرب‘‘ سے مشتق ہے۔ ’’قرب‘‘ کسی چیز کے نزدیک ہونے کو کہا
جاتا ہے، اس کے برعکس دوری ہے۔ قرب اور دوری دونوں یکجا نہیں ہو سکتے۔ جب کہ فی الحقیقت قربانی حضرت ابراہیمؑ کے اس بے مثل جذبۂ ایثار کی عظیم یادگار ہے، جس کا ابراہیمؑ نے حکم الٰہی و رضائے الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جواں سال لخت جگر حضرت اسماعیلؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کا عملی ثبوت پیش کیا اور ایک خواب کو حقیقت کا ایسا روپ دیا، جسے ربّ کائنات نے قبول فرما کر اسے فرزندان اسلام کے لیے سنت ِابراہیمی کا درجہ قرار دے دیا۔
دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ توحید خالص کا قیام ہو،چناںچہ اس سلسلے میں قرآن نے ہمیں جو ہدایات دی ہیں،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین بتوں کے لیے رکوع، سجدہ اور قربانی کرتے ہیں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یہ سب کام صرف اللہ کے لیے کر یں ۔ مشرکین جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے ہیں، پھر نہ کسی کو اس پر سوار ہو نے دیتے ہیں اور نہ ان کا گو شت کھانے دیتے ہیں ۔مسلمانوں کو حکم ہوا کہ تم قربانی کا گو شت خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ مشرکین اپنے جانوروں کو بتو ں کا نام لے کرذبح کر تے ہیںاور مسلمان ان پر صرف اللہ کانام لیں ۔اس کے بعد قرآن نے یہ بھی بتا یا کہ اﷲ تمہاری قربانی کے گوشت کا محتاج نہیں اور اس کے حضور قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا، بلکہ تمہاری خالص نیت پہنچتی ہے۔ اللہ کو قربانی کے گو شت سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ا س عمل کی روح خلوص نیت کو دیکھتا ہے،یعنی قربانی اللہ کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کر نے کا عملی ثبوت ہے ۔ قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شرطِ تقویٰ کی رعایت سے اﷲتعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیاگیا ارشاد فرمایا :’’ تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘ سیدناحضرت حسن بن علیؓ سے راویت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے خوش دلی اورثواب کی نیت سے قربانی کی،وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک )ہوجائے گی۔‘‘ (طبرانی)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آج کے دن جوکام ہمیں پہلے کرنا ہے، وہ نماز ہے اس کے بعد قربانی کرنا ہے جس نے ایساکیا، وہ ہماری سنت کو پہنچااور جس نے قربانی کے جانور کوپہلے ذبح کر ڈالا، وہ گوشت ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے پہلے ہی کرلیا،اسے نسک یعنی قربانی سے اُسے کچھ تعلق نہیں۔(امام احمد )
امام بخاری ومسلم نے حضرت انسؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھوں چت کبرے سینگ والوںکی قربانی کی، انہیں اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور بسم اﷲ اﷲ اکبر کہا ،راوی کہتے ہیں میں نے حضورؐ کو دیکھا کہ اپنا قدم مبارک اُس کے پہلو پر رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اﷲ،اﷲ اکبر کہا۔‘‘(بخاری و مسلم)
قربانی کے سلسلے میں یہ مسئلہ ہے کہ جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے،نہ ہاتھ پاؤں کاٹیں،نہ کھال اُتاریں، قربانی اپنی طر ف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعاپڑھیں۔ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ سَیَّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ ۔ اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کر ناہے تو ’’مِنّی‘‘ کی جگہ ’’مِنہْ‘‘کہہ کر اس کانام لیں ۔
ایک صحابیؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت علیؓ کو دیکھا کہ دومینڈھوں کی قربانی کررہے ہیں۔میں نے کہا یہ کیا،انہوں نے فرمایا:رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ میں حضورؐ کی طرف سے قربانی کروں،لہٰذا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرتاہوں۔(ترمذی)
اُمّ المومنین اُمّ سلمہ ؓسے راویت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے،تو جب تک وہ قربانی نہ کرے، بال اور ناخنوں سے نہ لے یعنی نہ ترشوائے ۔(مسلم ،ترمذی ،نسائی،ا بن ماجہ )
حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ سے راویت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی میں،بیل ، اونٹ سات کی طرف سے ہے۔(طبرانی)