قتل و غارت کی بہر صورت حمایت نہیں کی جاسکتی! حال واحوال

سہیل انجم

 

ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ یہاں کا فوجداری نظام کسی خاص مذہب میں جرائم سے متعلق دی جانے والی سزاؤں پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا اپنا قانون ہے جو ہر مذہب کے احترام کی بات کرتا ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کی توہین کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی کے ساتھ یہاں اظہار خیال کی بھی آزادی ہے لیکن یہ آزادی بے روک ٹوک یا بے لگام نہیں ہے۔ اس کے کچھ حدود و قیود مقرر ہیں۔ ان حدود و قیود کی خلاف ورزی پر سزا کا انتظام ہے۔ وہ اظہار خیال جس سے کسی شخص کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے پسندیدہ نہیں ہے۔ اس کے لیے قانون بنایا گیا ہے اور یہ حکومت و انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عملداری قائم کریں۔ قانون کے نفاذ کے ادارے ہیں اور وہ ادارے ہی اس سلسلے میں پیش رفت کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ چونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام ہیں یا وہ اپنے فرائض کی انجام دہی نہیں کر رہے ہیں، اس لیے وہ خود آگے بڑھ کر قانون کے نفاذ کو یقینی بنائے گا تو اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسے قانون اپنے ہاتھ میں لیناکہتے ہیں اور اگر ہر شخص قانون اپنے ہاتھ میں لینے لگ جائے تو پھر ملک میں افرا تفری مچ جائے گی، جگہ جگہ لوگ ایک دوسرے کو سزائیں دینے لگیں گے اور پھر ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ حکومت و انتظامیہ سے یہ اپیل تو کی جا سکتی ہے کہ وہ قانون کی عملداری میں کوتاہی نہ برتیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی انفرادی شخص یا غیر متعلق شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دے دیں۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر جانبداری سے کام کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی کے خلاف تو کارروائی کریں اور کسی کو کچھ نہ کہیں۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو بلا تفریق مذہب و ملت، نسل و برادری اور علاقہ و زبان اس کو ا س کے کیے کی سزا دی جائے۔ جب حکومتیں جانبداری سے کام لینے لگتی ہیں، ایک کے خلاف کارروائی کرتی ہیں اور دوسرے کو کھلی چھوٹ دیتی ہیں تو معاشرے میں اضطراب پیدا ہوتا ہے اور پھر افرا تفری کا ماحول بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے کہ کوئی جذباتی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور پھر خود ہی مجرم کو سزا دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ کسی شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے کے لیے قانونی اور عدالتی عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے کسی مذہب کے پیروکاروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے یا اس پر ایسا کوئی الزام لگایا گیا ہے تو پولیس کا کام ہے کہ وہ تحقیقات کرے اور اس معاملے کو عدالت میں لے جائے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ ہاں اس شخص پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں۔ اگر عدالت یہ پائے گی کہ الزامات درست ہیں تو وہ قانون کے مطابق سزا سنائے گی اور اگر الزام ثابت نہیں ہوتا ہے تو وہ شخص بری کر دیا جائے گا۔ اس قانونی عمل کے دوران بھی پولیس اور عدلیہ کو غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

جب سے اپنے وطن عزیز میں جے پی کی رہنما نپور شرما کا متنازع اور قابل اعتراض بیان سامنے آیا ہے، ملک میں ایک ہیجان برپا ہے۔ ہر مسلمان غمزدہ ہے اور نبی رحمت ؐکی شان میں گستاخی پر اس کا دل چھلنی ہو رہا ہے۔ اس پر ہندوستان میں بھی احتجاج ہوا اور دوسرے ملکوں میں بھی۔ عالمی اداروں نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ایسے بیانات کا اعادہ نہ ہو۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے بھی اس بیان کی مذمت کی گئی۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بھی بیان کی پرزور مذمت کی۔ عالم اسلام میں بھی شدید احتجاج ہوا اور مذکورہ بیان کو انتہائی مذموم قرار دیا گیا۔ خلیجی اور مسلم ملکوں کے احتجاج اور بعض ملکوں میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کے بعد ہندوستان نے وضاحت جاری کی تھی اور کہا تھا کہ جو بیان دیا گیا ہے وہ اس کی حمایت نہیں کرتا اور وہ بیان حکومت کے خیالات و نظریات کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ نپور شرما اور نوین جندل کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ تاہم ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی نہیں کی گئی۔ ان دونوں کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں لیکن تادم تحریر ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔ دونوں روپوش ہیں۔ یہاں تک کہ ممبئی کی پولیس کئی روز تک دہلی میں نپور کو تلاش کرتی رہی لیکن وہ نہیں ملی۔ جبکہ دہلی پولیس نے بجائے اس کے کہ اس کے خلاف کارروائی کرے اور اسے گرفتار کرے اس کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ ادھر اس معاملے کو اُجاگر کرنے والے ایک صحافی محمد زبیر کو ٹوئٹ پر کی جانے والی ایک شکایت کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انھیں ایک پرانے معاملے میں پوچھ تاچھ کے لیے تھانے میں بلایا گیا اور پھر گرفتار کر لیا گیا۔ حالانکہ انھوں نے صرف ایک پرانی فلم کا پوسٹر ٹوئٹ کیا تھا۔ یہ صورت حال پولیس کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اگر پولیس نے موجودہ مرکزی حکمران جماعت کے معطل رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہوتا تو یہ معاملہ بہت پہلے ٹھنڈا ہو گیا ہوتا۔ تاہم یہ ساری صورت حال اپنی جگہ۔ لیکن اس بنیاد پر کہ  مرکزی حکومت کی طرف سے سے اپنی جماعت کے معطل رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی،پر ہنگامے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ احتجاج تو کیا جا سکتا ہے لیکن وہ احتجاج پُر امن ہونا چاہیے۔ کسی بھی احتجاج کے دوران تشدد کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی اس کی حمایت کر سکتا ہے۔ کسی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ چہ جائیکہ کسی کی جان لے لی جائے۔

راجستھان کے ادے پور میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھرپور انداز میں مذمت کی جانی چاہیے۔ جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہندوستان میں کسی مذہب میں دی جانے والی سزاؤں کی بنیاد پر قوانین نہیں بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے تو بھی اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص کھڑا ہو جائے اور کہے کہ میں اپنے مذہب کے مطابق اس کو سزا دوں گا۔ ہم سب مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے تعلق سے بہت حساس ہیں۔ جو احتجاج کر رہے ہیں وہ بھی اور جو نہیں کر رہے ہیں وہ بھی۔ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی نعوذ بااللہ آپؐ کی تضحیک و تذلیل کرنے والے موجود تھے۔ لیکن جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ اپنے طور پرتوہین رسالت کے مرتکب کو سزا نہیں دیتے۔ بلکہ ایسے مواقع پر وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے کہ یا رسول اللہؐ، مجھے اجازت دے دیجیے کہ میں اس شخص کا سر قلم کر دوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خلیجی اور مسلم ملکوں نے شان رسالتؐ میں گستاخی پر احتجاج کیا۔ اپنے یہاں تعینات ہندوستانی سفیروں کو طلب کرکے اظہار ناراضگی کیا۔ بعض ملکوں نے ہندوستان سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ کچھ ملکوں میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی چلائی گئی۔ لیکن کسی بھی ملک، حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ نہیں کہا کہ گستاخ ِرسول کا سر قلم کر دیا جائے۔ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ملکوں نے بھی ایسی کوئی اپیل نہیں کی اور ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔ اسی طرح ہندوستان کے علما اور مذہبی جماعتوں نے بھی مذکورہ دونوں رہنماؤں یا ایسے کسی بھی شخص کو قتل کرنے کی بات کبھی نہیں کہی۔ ہاں !مسلم جماعتوں اور تنظیموں اور ان کے ساتھ ساتھ انصاف پسند غیر مسلم بھائیوں نے یہ ضرور کہا کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایسا مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ ملک میں قانون کی عملداری قائم ہو سکے۔ ورنہ اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو پھر ہر شخص اپنے مخالف کے مذہب کی توہین کرنے لگے گا۔

سوال یہ ہے کہ جب کسی بھی اسلامی ملک نے گستاخ رسول کا سر تن سے جدا کرنے کی اپیل نہیں کی تو پھر ایسی کارروائی کیوں کی گئی۔ جس کنہیا لال کو اُدے پور میں ہلاک کیا گیا اس پر یہ الزام تھا کہ وہ سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد پوسٹ کرتا تھا۔ اس کا عمل متنازع تھا، وہ گرفتار بھی ہوا تھا، اسے ایک روز بعد ضمانت ملی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنی زندگی کے بارے میں فکرمند تھا۔ اس نے ایک ہفتے تک دکان نہیں کھولی تھی۔ اس کو ڈر تھا کہ کوئی اس کی جان لے سکتا ہے۔ اس نے پولیس سے اپنے تحفظ کی اپیل بھی کی تھی۔بتایا جاتا ہے کہ وہ نپور شرما کی حمایت میں بھی مواد پوسٹ کرتا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ کوئی شخص خنجر لے کر اٹھے اور اسے قتل کر دے۔ اس واقعہ نے پورے ملک میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے، اس کے علاوہ اس واقعہ نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کی جانب سے اس واقعہ کی مذمت کی جا رہی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علما ہند اور دیگر جماعتوں نے اس کی مذمت کی ہے۔ ظاہر ہے کسی بھی شخص کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے عمل سے نہ صرف خود کو بلکہ پوری قوم کو مصیبت میں ڈال دے۔ کسی بھی مہذب ملک و معاشرے میں ایسی کارستانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہر شخص کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم تمام مسلمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموس کے تعلق سے بہت حساس ہیں۔ لیکن اس حساسیت کا یہ مطلب نہیں کہ پورے ملک کو مشکل میں ڈال دیا جائے۔ اگر کسی دوسرے مذہب کا ماننے والا کوئی شخص قانون شکنی کرتا ہے تو کرے۔ لیکن ایک مسلمان کو اپنے ملک کے قوانین کا پابند ہونا چاہیے۔ اسے اپنے عمل سے دنیا کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ قانون شکن گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ اپنے ملک کے قانون کو نہیں مانتا۔ یاد رکھیے ایسے کسی بھی عمل کے اثرات بہت سنگین ہوتے ہیں۔ جذباتیت میں مبتلا ہو کر کیے جانے والے کام خود کو بھی مصیبت میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کو بھی۔

(رابطہ ،موبائل 9818195929   )

[email protected]