قبیح رسم کو مِٹانے کی اشد ضرورت! لڑکیاں کب تک گائوشالوںمیں قید رہیںگی ؟

سونیا بگھری، اتراکھنڈ

کہنے کو تو حیض عورت کے لئے قدرت کا تحفہ ہے لیکن لوگوں نے اسے روایت کے ساتھ اس طرح باندھ رکھا ہے کہ یہ گرہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس کے نام پر عورتوں اور نوعمر لڑکیوں کے استحصال کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شہری علاقوں کے پڑھے لکھے خاندانوں میں بھی استحصال کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ لیکن ملک کے دیہی علاقوں میں اس کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے کئی دیہی علاقوں میں ایسی بہت سی روایات ہیں جو بالواسطہ طور پر خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے استحصال کا سبب بنتی ہیں۔ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک کا بگھڑ گاؤں اس کا زندہ ثبوت ہے۔ اس گاؤں میں حیض کو ایک برا رواج قرار دیا گیا ہے۔ جہاں اس دوران نوعمر لڑکیاں اور خواتین گوشالہ (گائے کے رہنے کی جگہ)میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس کے پیچھے یہ دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو دیوتا ناراض ہو جائیں گے اور گھر میں کسی ناخوشگوار چیز کا خطرہ ہو گا۔ ان کا ماننا ہے کہ اس عرصے میں اگر کوئی لڑکی یا نوعمر گھر کے پانی سے نہاتی ہے تو گاؤں میں تباہی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے حیض کے دوران انہیں گھر سے دور گدھوروں (پانی بہنے کے راستے) میں نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کا سامنا گاؤں کی ہر لڑکی اور خواتین کو ہے۔
اس حوالے سے گاؤں کی نوعمر لڑکیاں ہنسی اور نیہا کا کہنا ہے کہ جب ہمیں ماہواری ہوتی ہے تو ہمارے گھر والے ہمیں گوشالہ میں رہنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اس دوران گھر کے باتھ روم میں نہانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ وہ ہمیں گدھیرے کے پاس نہانے کے لیے بھیجتے ہیں، ہمیں وہاں اس طرح کھلے میں نہانا پڑتا ہے۔ اس دوران لوگوں کے آنے جانے کا خوف بھی رہتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان دنوں ہم جو کپڑے پہنتے ہیں انہیں بھی وہیں دھو کر خشک کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے آنے جانے کے خوف کی وجہ سے ہم سخت سردی میں بھی روشنی آنے سے پہلے نہانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن لڑکیوں کو پہلی بار ماہواری آتی ہے، انہیں 11 دن تک گوشالہ میں رکھا جاتا ہے۔اس دوران انہیں مندروں میں جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ان نوعمر لڑکیوں کا کہنا تھا کہ اکثر لڑکیاں ماہواری کے دنوں میں اسکول چھوڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں۔ سب سے مشکل حصہ پیڈ کو تبدیل کرنے میں آتا ہے کیونکہ یہ ہمارے گاؤں کے میڈیکل اسٹوروں پر بہت کم دستیاب ہے۔ اگر مل بھی جائے تو بہت مہنگا ہے ،جسے ہم خرید نہیں سکتے۔ افسوس کی بات ہے کہ گاؤں کی آشا ورکرز بھی مفت دینے کے بجائے قیمت وصول کرتی ہیں۔
صرف نوعمر لڑکیاں ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ان روایتوں سے نبرد آزما ہیں۔ گاؤں کی خواتین کھلا دیوی اور مایا دیوی بتاتی ہیں کہ ماہواری کے دنوں میں انہیں شادی سے پہلے بھی حیض کے دوران گھر کی گوشالہ میں اسی طرح رہنا پڑتا تھا اور شادی کے بعد سسرال میں بھی اسی روایت پر چلنے پر مجبور ہیں۔ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی اسی روایت پر چلتے ہوئے گزرہی ہے۔ لیکن کوئی بھی عورت اسے ختم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ معاشرے کے بنائے ہوئے اس اصول کے خلاف کوئی نہیں جا سکتی ہے۔ سب کو لگتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو گاؤں پر آفت آ سکتی ہے، جس کے لیے وہ ذمہ دار نہیں بننا چاہتی۔ تاہم، وہ چاہتی ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں اس برے عمل سے آزاد ہوں۔اس سلسلے میں گاؤں کی آشا ورکر بھاونا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانی اوربری روایت ہے، جسے آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسے معاشرے کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران سب سے زیادہ امتیازی سلوک نوعمر لڑکیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی نوجوان اس روایت کے خلاف جاتی ہے اور ماہواری کے دوران گھر میں ہی غسل کرتی ہے تو اس کے اہل خانہ پر پانچ ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جرمانہ ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو پورا معاشرہ اس کا بائیکاٹ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی خاندان اس برے عمل کے خلاف جانے کی ہمت نہیں دکھاتا۔ اس طرح خواتین اور نوعمر لڑکیاں اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
وہیں گاؤں کی پردھان آشا دیوی نے قبول کیا کہ گاؤں میں پیڈ کی زیادہ سہولت نہیں ہے، جس کی وجہ سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ گندے کپڑے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ جس کی وجہ سے ان میں کئی خطرناک بیماریاں پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔اگرچہ گاؤں کی سماجی کارکن نیلم گرینڈی کا ماننا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں گاؤں میں بیداری بڑھی ہے، لیکن پھر بھی یہ کئی طرح سے اندھی تقلیدکے جال میں پھنس گئی ہے۔ یہ گاؤں میں اپنی جڑیں اس طرح جما چکی ہے کہ جو خواتین ٹیچرز تبادلے کے ذریعے گاؤں میں آئی ہیں، انہیں صرف کرائے پر مکان اس لئے نہیں ملتا ہے کیونکہ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ حیض کے اصولوں پر عمل نہیں کرتی ہیں۔وہ ان دنوں گوشالہ میں رہنے سے انکاری کرتی ہیں۔ ایسے میں وہ دیوتا کا قہر اپنے گھر پر نہیں آنے دینا پسند کرنا چاہیں گے۔ نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ یہ ایک پرانا رواج ہے، جسے صرف بیداری اور سائنسی استدلال کے ذریعے ہی جڑ سے اکھاڑ جا سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں یہ کیسی ستم ظریفی ہے؟ راسخ العقیدہ سوچ نے لوگوں کی ذہنیت کو اس طرح جکڑ لیا ہے کہ وہ اس سوچ سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔ ایک استاد جو بچے کو پڑھنا سکھاتی ہے، صحیح اور غلط کی پہچان بتاتی ہے، سائنسی منطق کی بنیاد پر اسے بیدارکرتی ہے، اسے ہی یہاں کے لوگ اپنی روایات کی آگ میں جھونکتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ گاؤں گاؤں میں اس کے خلاف عوامی بیداری مہم چلائی جائے۔ جس میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد اور نوعمر لڑکوں کو بھی اس مہم میں بڑی تعداد میں شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل خود آگے آئے اور اس قبیح رسم کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرے۔
[email protected]>