فکر و عمل کی آفاقیت ۔اولاد ِآدم کی مشترکہ میراث تجلیات ادراک

ڈاکٹر عریف جامعی

ربّ تعالیٰ نے بنی آدم کو جس تکریم اور تفضیل سے نوازا ہے، اس میں تفکر، تعقل، تفہم اور تدبر کو اعلی ترین مقام حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کا تعلق انسانی دماغ کے ساتھ ہے۔ اب جہاں تک دماغ کا تعلق ہے تو یہ مختلف اشیاء میں مختلف انداز میں کام کرتا ہے۔ نباتاتی دماغ میں تغذیہ، نشوونما اور افزائش کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں، جبکہ حیوانی دماغ میں ان صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ نقل و حرکت کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ یہ صرف انسانی دماغ ہے جس کے اندر ان بنیادی صلاحیتوں کے علاوہ تخیل، تصور اور استدلال کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ صلاحیت جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممیز کرتی ہے نظری استدلال اور عملی استدلال کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اس سے بالترتیب مجرد فکر اور عملی اخلاق منصہ شہود میں آتے ہیں۔
فکر کے ساتھ حکماء (فلاسفہ) کو اس قدر دلچسپی رہی ہے کہ فلسفے کے استاذ اول، ارسطو نے ذات واحد (دی وَن)، ذات ابدی (دی اٹرنل) یا ذات مطلق (دی ابسلیوٹ) کو ’’فکر محض‘‘ سے تعبیر کرکے اعلان کیا کہ یہ ذات ’’ایک فکر ہے اور اس کی فکر یہ ہے کہ فکر فکر کا فکر کررہی ہے!‘‘ نظریہ نوافلاطونیت (نیو پلوٹونزم) نے تو تخلیق کائنات کو دس عقول (ٹین انٹلیجنسز) کا اسی ذات واحد، جس کو فکر محض قرار دیا جاچکا تھا، سے اخراج (امینیشن) کے طور پر سمجھانے کی کوشش کی۔ یہ نظریہ اتنا مشہور و مقبول ہوا کہ مسلم مشائیین (مسلم پریپٹیٹکس)، خاص کر الکندی، الفارابی اور ابن سینا، نے اس کو جوں کا توں قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں اس نظریے کا بھرپور رد کیا ہے۔
بہرحال فکر ایک ایسی دماغی سرگرمی ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے مجرد (ابسٹریکٹ) ہے اور یہ سب سے پہلے نطق (یعنی قوت گویائی) کے ذریعے سامنے آتی ہے یا اس کا اظہار بات یا کلام کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب بات کرتا ہے تو وہ دراصل اپنا مافی الضمیر یا منشا سامنے لاتا ہے۔ جب دو یا بہت سے انسان آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو اس وقت کوئی عملی سرگرمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس نطق اور گویائی کو خالق کائنات نے انسان پر اپنے بہت بڑے انعام کے طور پر پیش کیا ہے اور قرآن نے اسے بڑے ہی شاندار انداز میں سامنے لایا ہے: ’’اسی (اللہ) نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘ (الرحمن، ۳۔۶) ظاہر ہے کہ فکر کی ترسیل کے ذریعے ہی انسان ایک ایسی دنیا وجود میں لاتا ہے جو ہر آن روبہ ارتقاء رہتی ہے اور ایسی ہی دنیا میں وہ اپنی انفرادیت اور شرف باقی رکھتا ہے۔
اس طرح فکر علم کی شکل اختیار کرکے انفرادی طور پر بھی انسانی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی انسانی معاشرے کو نیا قالب عطا کرتا ہے۔ تاہم یہاں پر یہ بات ملحوظ نظر رہنی چاہئے کہ علم نفع دینے والا یعنی نافع بھی ہوسکتا ہے اور ضار یعنی ضرر یا نقصان پہنچانے والا بھی ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں قرآن (ربّ ِ زِدنی عِلما) میں علم کے اضافے یا برکت کے لئے دعا کرنا سکھایا گیا ہے، وہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم نافع (سنن ابن ماجہ) کی دعا کی ہے، جبکہ آپؐ نے علم غیر نافع (صحیح مسلم) سے اللہ کی پناہ مانگی ہے۔ فکر کس طرح کلام (کلمہ، بیان) کی صورت میں علم بن کر نمودار ہوتا ہے اور اس سے کس طرح انسانی معاشرہ متاثر ہوتا ہے، اس کی ایک بلیغ مثال قرآن کی ان آیات میں دی گئی ہے: ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے پاکیزہ بات (کلمہ) کی مثال کس طرح بیان فرمائی؛ مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔ جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ناپاک بات کی مثال گندے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں۔‘‘ (ابراہیم، ۲۴۔۲۶) انجیل میں اسی بات کو سمجھانے کے لئے سرسوں کے بیج اور کاشتکار کی مثال دی گئی ہے۔
واضح ہوا کہ فکر صحیح بھی ہوسکتا ہے اور فکر کے غلط ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ تام جو فکر انسانیت کو پیغمبران کرام علیہ السلام کے ذریعے ملتا ہے ،وہ خالص حق ہوتا ہے، جس سے حیات انسانی کا ہر گوشہ پاکیزگی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ اس بات کو قرآن نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: ’’جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو، تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔‘‘ (النحل، ۹۷) ظاہر ہے کہ اس فکر کے ساتھ ٹکرانے والا ہر فکر اپنی بنیاد میں ناقص اور کمزور ہونے کی وجہ سے بھونڈا ثابت ہوتا ہے اور یہ استدلال کی سطح پر قائم نہیں رہ پاتا۔ اس کی مثال ہمیں ابراہیم علیہ السلام کے حاکم وقت کے ساتھ مکالمے میں نظر آتی ہے۔ اس مکالمے کو قرآن نے اس طرح پیش کیا ہے: ’’کیا تو نے انہیں نہیں دیکھا جو سلطنت پاکر ابراہیم ؑسے اس کے ربّ کے بارے میں جھگڑ رہا تھا۔ جب ابراہیمؑ نے کہا کہ میرا ربّ تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میں بھی جلاتا ہوں اور مارتا ہوں۔ ابراہیمؑ نے کہا کہ اللہ تعالی سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے، تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وہ منکر خدا ہکا بکا رہ گیا۔‘‘ (البقرہ، ۲۵۸)
تاہم فکر صحیح پر بھی صحیح معنی میں اسی صورت میں عمل ہوسکتا جب اس کو سمجھا جائے اور اس کے کسی پہلو کی کوئی غلط تاویل نہ کی جائے۔ دل و دماغ کی کجی یا ٹیڑھ کے ساتھ فکر صحیح و سالم بھی وہ نتائج نہیں دکھا سکتا جو اس سے حاصل ہونا لازمی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے فکر میں ٹیڑھ پیدا کرنے والے رویے سے اس طرح بچنے کی تلقین کی ہے۔’’جو بات کو کان لگاکر سنتے ہیں، پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر، ۱۸) البتہ جب فکر صحیح کی کسی اوٹ پٹانگ تشریح کے بجائے اس کو من و عن قبول کیا جائے، تو اس کے نہ صرف اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں بلکہ اس کی بنیاد پر کیا جانے والا (صالح) عمل اس کو اس کے اصل سرچشمے تک بلند کرتا ہے، یعنی عمل کرنے والے کو اس کی قبولیت کا مژدہ سنایا جاتا ہے: ’’تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔‘‘ (فاطر، ۱۰)
تاریخ عالم میں اعلی دماغوں کے حامل انسانوں نے کچھ اس سطح کا فکر پیش کیا ہے، جس سے انسانیت کے فکر کے سوتے ہمیشہ سیراب ہوتے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ یونان کی تاریخ میں ڈایوجنیز نے ایک سوال کے جواب میں کچھ ایسا فقرہ کہا جس کو اس کے بعد آنے والے عبقری ذہنوں نے مختلف اوقات میں مختلف پیرایوں میں پیش کیا۔ یونان کے اس فلسفی، جو اتھنز کی گلیوں میں دن کے اجالے میں لالٹین جلاکر چلتا تھا، سے جب دوپہر کی چکا چوند روشنی میں ہاتھ میں لالٹین لیے گھومنے کی وجہ پوچھی گئی، تو اس نے جواب دیا کہ اسے ’’آدمی کے تلاش ہے!‘‘ اس ذرا سے غیر معمولی عمل اور اس کے پیچھے کارفرما اعلی فکر میں اتنی آفاقیت اور عالمگیریت پنہاں ہے کہ کوئی بھی شخص اس کو اپنے معاشرے کے فکری اور عملی جمود پر منطبق کرسکتا ہے۔ مختلف صوفیاء کرام کے ساتھ ساتھ اس فکر کو مولانا رومی نے بھی اپنے خاص انداز میں برتا ہے۔ یہ بات بھی بڑی معنی خیز ہے کہ لل دید نے، اعتقادی ادب (ہیوگرافی) کے مطابق، میر سید علی ہمدانی ؒ کو ’’مرد اصل ‘‘قرار دیا۔
خلیفہ دوم، سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا تاریخی لیکن گہرے فکر پر مبنی فقرہ تو عمل کی دنیا میں انقلاب عظیم کا پرتو بھی ہے اور نقیب بھی! پرتو اس لئے کیونکہ یہ دراصل اس قرآنی فکر کی پیداوار تھا جس کے باعث قرنوں سے جاری انسانیت کی صفوں میں موجود اونچ نیچ کا قلع قمع کیا گیا اور نقیب اس وجہ سے کہ یہی فکر بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانیت نے مجموعی طور پر قبول کیا۔ ہوا یوں کہ مصری صوبہ دار (گورنر) کے بیٹے نے ایک دیہاتی کو اس وجہ سے کوڑے مارے کہ دیہاتی نے اسے گھوڑ دوڑ میں ہرا دیا تھا۔ مذکورہ شخص نے دیہاتی کو مارتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا تھا: ’’انا ابن الکریم۔ میں معزز باپ کا بیٹا ہوں‘‘۔ لیکن جب دیہاتی نے سیدنا عمرؓ کے سامنے استغاثہ پیش کیا تو دونوں باپ بیٹے کو پیشی کے لئے دربار خلافت (مدینہ منورہ) میں حاضر ہونا پڑا۔ صورتحال کی تفتیش کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیہاتی کے ہاتھ میں کوڑا تھماتے ہوئے صوبہ دار کے بیٹے کے الفاظ استعمال کرکے دیہاتی کو حکم دیا: ’’اضرب ابن الکریم۔ مارو معزز کے بیٹے کو‘‘۔ اس موقعے پر سیدنا عمرؓ کی زبان پر وہ تاریخی کلمات جاری ہوئے جن کو نچلے طبقے کے حقوق کا آئینہ دار ہونے کی وجہ سے مختلف صورتوں میں دنیا کے بڑے بڑے عبقری انسان معاشرتی ظلم و جور کے خلاف استعمال کرتے آئے ہیں۔ آپؓ نے باپ بیٹے کو للکارتے ہوئے کہا: ’’متی استعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احرارا۔ آپ نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا ہے، جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا۔‘‘ واضح رہے کہ فرانسیسی مفکر، جین جاک روسو نے معاشرتی حقوق کی بازیابی کے لئے جیسے انہی الفاظ کا ورد کیا ہے۔ روسو کہتے ہیں: ’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا، لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے!‘‘ مارٹن لوتھر کنگ جونئر نے بھی اپنی معاشرتی حقوق کی تحریک میں زور پیدا کرنے کے لئے کچھ اسی طرح کے الفاظ کا استعمال کیا۔ تحریک آزادئ ہند کے دوران بال گنگا دھر تلک نے کچھ اسی طرح کہا تھا کہ ’’آزادی میرا پیدائشی حق ہے، میں اسے حاصل کرکے رہوں گا۔‘‘
اس طرح واضح ہوتا ہے کہ فکر صحیح، فکر صالح اور فکر سالم انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ یہ فکر تجلیات الٰہی کا شاہکار ثابت ہوتا ہے۔ ایسا فکر عمل کی دنیا میں ایک تناور درخت بن کر انسانیت کو پھل پھول بھی دیتا ہے اور سایہ بھی عنایت کرتا ہے۔ اس کے برعکس غلط فکر پھوہڑ درخت کی شکل اختیار کرکے کڑوے کسیلے پھل لاتا ہے اور انسانیت کو اپنے کانٹوں سے لہولہان کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں انسان کی مسرت کے لئے پھول ہوتے ہیں اور نہ راحت کے لئے پتے۔ اس سے انسانی ماحول ظلمات کی تہوں کے اندر دب جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تاریکی فکر صحیح و سالم کی تجلی سے ہی دور ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ فکر آفاقی بھی ہوتا ہے اور عالمگیر بھی!
(مصنف اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔: 9858471965
: [email protected]