فقیرنی کہانی

خوشنویس میر مشتاق

دو کمروں پر مُشتمل بوسیدہ گھر۔ گھر کی چھت پہ مکڑی کے جالے ۔ درودیوار بھی پھٹے ہوئے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے پچھلے کئی سالوں سے گھر کی کسی نےمرمت نہیں کی۔ جہاں جان اور کھانے کے لالے پڑے ہوئےہوں۔ وہاں گھر کی مرمت کون کرے گا؟
ہاں ! گھر میں کوئی دوسرا فرد ہوتا تو شاید ضرور کر لیتا۔ گھر میں کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے۔ فقط اللہ کا واحد سہارا ہے۔ اور کسی کا سہارا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
میلے کچیلے کپڑوں میں ملبُوس ایسا لگ رہا ہے جیسے دُنیا جہاں کے سارے مسائل کو اپنے دامن میں سمیٹے لیے پھرتی ہو۔
کون کیا کررہا ہے۔؟
کیا پہن رہا ہے اور کیا کھا رہا ہے ؟
ہر وقت لوگوں کی فکر لاحق رہتی ہے۔
خُلوت ہو یا جلوت ہر وقت کچھ نہ کچھ بڑبڑا رہتی ہے۔ زبان کی اتنی تیز کہ ہر وقت چر چر کرتی رہتی ہے۔ بینائی کم ہوتے ہوئے بھی دُور سے ہی اندازہ لگا لیتی ہے کہ کون آرہا ہے ؟ اور کون جا رہا ہے۔ ؟ حافظہ اتنا اچھا جب کسی سے کوئی بات سُنتی تو وہ بات انہیں ہمیشہ کیلئے ازبر ہو جاتی۔ تاریخ کی اتنی پکّی کہ آئیندہ آنے والے دنوں کی گنتی بھی جھٹ سے کر لیتی۔
یہاں اچھے اچھوں کو رات کا کھانا ٹھیک طرح سے یاد نہیں رہتا۔ ایک تو یہ ہے جو عمر رسیدہ ہوتے ہوئے بھی پچھلے کئی مہینوں تو کیا سالوں کی خبر فورا سُنا لیتی ۔ پتہ نہیں یہ اتنا سب کچھ کیسے کرلیتی ہے۔ جب آس پاس کوئی نہیں ہوتا تو دل کی بھڑا س نکالنے کیلئے درودیوار سے باتیں کر لیتی ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کہتی رہتی ہے۔
باہر برآمدے میں بیٹھی دونوں ہاتھ ماتھے پہ لگائے سرگُوشی کے انداز میں ایسے کہہ رہی تھی جیسے سامنے سے کوئی سُن رہا ہو۔۔۔۔۔۔
“ہائے ! میری کم بختی ۔
میرا کیا بنے گا۔
میں اکیلی عورت کہاں کہاں پہنچو”۔۔۔!!!
ایک تو فلاں شخص ہے جس کے تین چار بیٹے ہیں، وہ بھی ہٹے کٹے اور تندرُست۔ چاروں بیٹے اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ خود کی بھی اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ کسی چیز کی کمی بھی نہیں ہے۔ پرسوں ہی دو بیٹوں کی شادی تھی۔ مجال ہے کسی سے کھانے تک کا پوچھا ہو۔ غیر تو غیر ہے، محال ہے اپنی سگی بہن کو بھی کھانے کے لئے پوچھا ہو۔ ایسے ہی کوئی بڑا آدمی نہیں بنتا۔۔۔۔
سُنا ہے لڑکی والوں کی طرف سے اچھا خاصا جہیز بھی ملا ہے۔ ورنہ ! اُنہیں کس چیز کی کمی تھی جو اب لڑکی والوں کو بھی لُوٹ لیا ہے۔ اُن سے تو آج تک کسی غریب کا بھلا نہ ہو سکا میری کیا مدد کرے گا۔ یہاں سب لوگ ایسے ہی ہیں کوئی کسی غریب کا بھلا نہیں چاہتا۔
میں کیا کروں؟
کہاں جاؤں ؟
میرا اللہ کے سوا کون ہے ؟ جو میرا خیال کرے گا۔”
مجھے تو پچھلے کئی مہینوں سے راشن بھی نہیں مل رہا ہے۔ میں منشی کے پاس گئی تو تھی لیکن وہ کچھ ” فنگر پرنٹ ” کا کہہ رہا تھا۔ پتہ نہیں یہ ” فنگر پرنٹ “کون سے نئی بھلا ہے جس کے بِنا راشن ملنا بھی دُشوار ہو گیا۔ بیڑہ غرق ہو ایسی حکومت کا جو غریب کی مجبوری کو نہیں سمجھ سکتی۔ آج بھی راشن ایک پڑوسی سے مانگ کر لائی تھی۔ اُس میں بھی آدھا کسی فقیر کو دے دیا۔
بار بار کسی سے تو نہیں مانگا جاتا۔ یہاں امیر کبیر لوگوں کے پاس چار چار “راشن کارڈ” ہیں حالانکہ اُنہیں “راشن کارڈ ” کی اُتنی ضرورت تو نہیں ہوتی ہے جتنی کسی مجبور اور قلاش کو ہوتی ہے۔ یہی لوگ راشن اسٹور پر لمبی لمبی قطاروں میں ایسے پڑے ہوتے ہیں جیسے صدیوں سے بھوکے پیاسے پڑے ہو۔ اگر میرا اپنا راشن کارڈ ہوتا ۔ تو شاید مجھے یوں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے ۔ اور نہ ہی میں لوگوں کے احسان تلے ہوں دبی رہتی۔
یہاں تو لوگ بظاہر نیک اور سخی معلوم ہوتے ہیں لیکن اندر سے یہ لوگ اُتنے ہی ڈھیٹ اور خود سر ہوتے ہیں۔ اپنے سوا کسی کا بھلا نہیں چاہتے۔ یہاں انسانیت کا جنازہ کب کا اُٹھ گیا ہے ۔ابنِ آدم اپنی نام نہادی کی خاطر دکھاوے کی ہمدردیاں بانٹتے پھر رہا ہے جبکہ بات اس کے برعکس ہے۔ یہ سب تماشہ دیکھ کر آسمان بھی گریہ کُناں ہے کہ کس قدر ابنِ آدم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموشی سے غریب کا تماشائی بن بیٹھا ہے۔ اُسےشاید ! اس بات کا عِلم نہیں ہے کہ آج جس کا وہ تماشائی بن بیٹھا ہے کل وہ خود تماشہ بن جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
���
ایسو ( اننت ناگ)،[email protected]