فساد کی جڑ۔حرام اور ناجائز کمائی فکروادراک

قیصر محمود عراقی

اسلامی نظام کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ صرف جائز طریقہ آمدنی کی اجازت دیتا ہے ،اس کے بر عکس نا جائز طریقے سے حاصل کی گئی آمدنی کو نہ صرف حرام اور ناجائز بلکہ فسا دکی جڑ بھی قرار دیا ہے ۔ اسلامی نظام معیثت نے حرام روزی کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں تا کہ معیثت میں بد امنی پیدا نہ ہو ، سود بھی ان ہی دروازوں میں سے ایک ہے ، اس لئے سود کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ سود سے خطر ناک معاشی و معاشرتی نقصانات پیدا ہو تے ہیں کیونکہ اس کی بنیاد ظلم اور استحصال پر ہے ۔ اس کی وجہ سے معیثت پر چند سر مایہ داروں کا تسلط ہو جا تا ہے جس کی وجہ سے صحت مند معاشی جدو جہد ختم ہو جا تی ہے ، دولت سمٹ کر چند افراد کے پاس جمع ہو جا نے سے لوگوں کی قوتِ خرید روز برو ز کم ہو جا تی ہے، صنعت و تجارت اور زراعت میں کساد بازاری پیدا ہو کر معاشی زندگی تباہ بر باد ہو کر رہ جا تی ہے ، قرض میںدیئے ہو ئے راس المال پر جو زائد رقم کے مقابلے میں شرط اور یقین کے ساتھ لی جا ئے یعنی اصل مال پر جو زیادتی حاصل ہو تی ہو ،وہ سود یا ربا کہلا تی ہے اور اس زیادتی کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے اور لفظ ربا سے تعبیر کیا ہے ۔
تو ریت کے ماننے والے یہودی آج دنیا کے سے بڑے سودخور ہیں لیکن اسلام نے اس نظام پر ضرب کاری لگا کر اس کے مضرات کو بھی اُجاگر کیا ہے ۔ آج سود کی تباہ کاریاں دنیا پر چھائی ہو ئی ہیں ۔ درحقیقت ہر دور میں انسان کو دولت کی ہوس اندھا کر تی رہی ہے ، جس نے ایک انسان کو دوسرے انسان کی ہمدردی سے محروم کر دیا ہے ۔ سود خور اپنے راس المال سے زائد جو کچھ لیتا ہے وہ درحقیقت معاشرہ کی لوگوں کا خون ہے جو وہ بکمال درندگی چاٹتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی ممانعت کی گئی ہے ۔ نبی کریمؐ کے عطا کر دہ معاشری نظام میں کسی بھی قسم کے سود کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، چاہے سود مفرد ہو یا مرکب ہو ، ذاتی غرض پر لیا جا ئے یا تجارت اور پیدواری قرضوں پر وہ ہر صورت میں حرام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سود لینے والے کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے درمیان اعلان جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہ صرف سود کھانے والے کو بلکہ اس کی تحریر کر نے والے اور اس کے گواہ کو بھی اس گناہ میں برابر کا شریک گر دانا گیا ہے ۔
اسلام میں سود کی ممانعت محض اخلاقی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ اس کے خطر ناک اقتصادی اور سماجی مضرات کی بنا پر بھی ہے ، سود کی لعنت متعدد قدیم معاشروں کی تباہی کا باعث بھی بن چکی ہے کیونکہ اس کی بنیاد استحصال اور ظلم پر ہے۔ عبد اللہ بن حنظلہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکر مؐ نے فرمایا:سود کا ایک در ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ۳۶ بار زنا سے گناہ میں زیادہ وزنی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ سود میں گناہ کے ۹۹ درجے ہیں ان میں سے کم تر درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں سے برے تعلقات قائم کر ے ( معاذ اللہ ) ۔ اس کے علاوہ سود سے بہت سارے نقصانات بھی ہیں ۔ یعنی سود خور کی مال میں بر کت نہیں ہو تی ، ایسے مال میں عام طور سے آفتیں لاحق ہو تی ہیں ۔ نا جائز مصارف میں خرچ ہو جا تا ہے یا کسی نا گہانی آفت و حادثے کی نذر ہو جا تا ہے۔ سود خورمال کے اصل فوائد یعنی عزت و راحت سے محروم رہتا ہے ، اسے اساب راحت چاہے جس قدر حاصل ہو جا ئیں ، حقیقی راحت و اطمینان و سکون کی کیفیات حاصل نہیں ہو تیں ۔ اور سود خور کی طبیعت میں سود خوری کی وجہہ سے شقاوت ، تنگ دلی ، بزدلی ، مجنو نانہ حرص و ہوس اور بے رحمی کے جراثیم جڑ پکڑ لیتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ دوسروں کے دلوں میں اس کی کوئی قدر و منزلت اور عزت و مقام باقی نہیں رہ جا تا اور مال کے حرام ہو نے سے اولاد بھی نافرمان ہو تی ہے ۔
بہرحال آج ہم جب اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں کہ کھلے عام سود سے بھی محفوظ نہیں رہنا چاہتے اور ادھر اُدھر ہاتھ مار کر دنیوی شک سے فائدہ حاصل کر نے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ کسی قدر سادہ روح اور بھولے ہیں، وہ لوگ جو سود کے بارے میں قرآن وسنت کے سخت اور شدید لہجے کی موجودگی میں بھی تجارتی اور کارو باری سود کو سود نہیں سمجھتے اور باور کر انے کی کوشش کر تے ہیں کہ یہ منافع ہے سود نہیں ہے، یہاں تک کہ بعض بڑے بڑے اسکالر اور عالم بھی ڈگمگا گئے ہیں اور نا پاک جسارت کر کے سود کے جواز کی خطر ناک پکڈنڈی پر چل نکلے ہیں ۔آج ہم کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ ہم سود کے حرام اور ظالمانہ نظام کو خیر آباد کہنے کا کبھی نہیں سوچتے ۔ صرف بینکوں اور بیمہ کمپنیوں کی بات نہیں ،آج تما م سرکاری و غیر سرکاری کا روبا سود پر مبنی ہے ، اللہ محفوظ رکھے۔ شاید ہی کوئی لقمہ ایسا جو بالوواسطہ یا بلا واسطہ کی آلائش کے بغیر ہمارے منہ میں جا تا ہو ۔ ایسے میں ہم قیامت کے دن حضور اکر مؐ کے سامنے کیا منہ لے کر جا ئینگے ؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے ؟ ظاہر ہے جو اب نفی میں ہی ملے گا ۔معاشرے سے سودی نظام کے مکمل خاتمے کی ضرورت سے کوئی مخلص مسلمان انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ اس لئے ہمیں چاہیئے کہ اسلام کے اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر موجودہ مالیاتی قوانین کی تطبیق کا کام اس طرح سر انجام دیں کہ حرمت سود کی قرآنی فکر مکمل طور پر عملاً نافذ ہو جا ئے ۔ بصورت دیگر تاریخ عالم گواہ ہے کہ سود خور قوموں کا انجام با رہاان کی خون ریزی اور قتل عام پر ہی ہو تا ہے ۔ اگر ہم بغیر سودی نظام کو اپنے معاشرے میں اس وقت اور فوراً نافذ کر نے میں کا میاب ہو جائیں اور نتائج اللہ پر چھوڑ دیں تو ایسا وقت جلد آئے گا کہ تر قی یافتہ ممالک بھی دنیا کے امن اور چین کے مفاد میں اس کو اپنانے پر مجبور ہو جا ئیگی اور اس طرح ایک منصفانہ اقتصادی نظام کی بنیاد پڑ جائیگی جو انشا اللہ کبھی تبدیل نہ ہو سکے گی ۔
الغرض جب اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے متعدد مقامات پر سود کو حرام قرار دے کر اس سے بچنے کا حکم فرمایا ہے تو بحیثیت مسلمان ہمارے پاس کون سا جواز باقی رہ جا تا ہے، اس لئے اگر اب تک اس گناہ میں شریک ہیں تو فوراً تو بہ کر لیں اور حلال رزق کی تلاش میں نکل جا ئیں کیونکہ حرام مال سے نشو و نما پانے والا جسم جنت میں داخل نہ ہو گا اور ساتھ ہی حرام کھانے والی کوئی دعا قبول نہیں ہو تی اور کوئی عبادت بھی قابل قبول نہیں ۔بد قسمتی سے سود اور سودی کاروبار کو شریعت کا نام لیکر جائز ثابت کر نے کی بے سود کوشش کی جا رہی ہیں ، لیکن صاحبان فکر و نظر اور علما حق کی بھاری اکثریت کے نزدک اسلام میں سود کسی درجہ کا بھی گوارا نہیں ہے ، چاہے اقتصادی احوال و ظروف میں کتنے ہی تغیرات رونما کیوں نہ ہو جا ئیں علما کے نزدیک قرآن و سنت کی روشنی میں سود کی ماری انواع ہر حال میں قطعاً حرام ہیں ۔
)رابطہ۔6291697668)
[email protected]>