فراموش کردہ مجاہدین آزادی ! لمحۂ فکریہ

جبیں نازاں

سوموار15اگست کو ہندستان کے آزادی کی 75 ویں سالگرہ منائی گئی ، جسے ہماری حکومت نے ‘امرت مہوتسو کا نام دیا۔ واقعی یہ امرت مہوتسو ‘ہے۔ لیکن ذرا ٹھہریں ! ہم یہ سوال خود سے کریں کہ کیا واقعی ’’امرت مہوتسو‘‘ ہے؟ ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے۔ ہندستان کے ہر فرد کے لیے؟یا پھر کسی طبقے کے نظریہ کے حامل افراد تک اس امرت مہوتسو کو محدود کردیا گیا ؟آزادی کےبعد بھارت کی پہچان گنگا جمنی تہذیب بتائی گئی ، کثرت میں وحدت یعنی کہ ہندستان مختلف رنگا رنگ پھولوں سے سجا وہ گلدستہ تھا ۔جس میں ہر پھول کی منفرد اہمیت اور افادیت تھی ۔لیکن 75 سال آتے آتے اس گلدستہ سے ایک ایک پھول ہٹانے کی کوششیںنمایاںہورہی ہیں۔
اگر چہ ‘امرت مہوتسو، منانے کی متعدد وجوہات میں ایک وجہ تمام مجاہدین آزادی کو یاد کرنے کا پلیٹ فارم بتایا گیا،کیا واقعی ہر پلیٹ فارم پر اس پر عملدرآمد ہوسکا؟آزادی کے بعد بننے والی حکومت میں جو رہنما شریک حکومت رہے، انہیں کے نام سے شروع اور انہیں کے نام پہ ختم کردی گئی پالیسی چلتی رہی ۔تو پھر موجودہ حکومت سے کیا شکوہ؟
بعض مبصرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ملک کا مسلمان نہ تاریخ نویسی میں دلچسپی لیتا ہے اورنہ تاریخ پڑھنے کا حوصلہ۔جوکہ بالکل بے سروپا باتیں اور غیر منطقی دلیل ہے۔
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، حکومت میں جس طبقے کی جتنی شراکت ہوگی،اس طبقے کو ملک کی آزادی کا اتنا ہی حصہ دار مانا جائے گا۔ کیا یہ خطرناک رجحان نہیں؟ ملک و قوم کے لیے انگریز کا ایک سپاہی(جو اکثریت طبقے سے تعلق رکھتا ہے ) نشے کی حالت میں انگریز پہ ایک گولی کیا چلا ئی کہ اسے مجاہد آزادی قرار دے دیا جاتا ہے اور اقلیت طبقے کے سینکڑوں افراد آزادی کی لڑائی میں اپنا گھر بار گنوا کر اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرتا ہے ۔لیکن اسے گمنامی کی راکھ تلے دبا دیا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کی ابتدا 1857ء سے نہیں بلکہ 1754ء سے قبل شروع ہوتی ہے۔نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خاں فورٹ ولیم پہ حملہ کرکے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجاچکے تھے،مسلسل تین سال تک انگریز سے لڑتے رہے، 1957ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔ان کے انتقال کے بعد ان کے نواسے سراج الدولہ نے کمان سنبھالی ، ان کا مقابلہ اپنے ہی دارالسلطنت مرشد آباد میں انگریزوں سے ہوا، اپنے ہی فوج کے غدار سپاہی میر صادق کی جفاکشی نے انھیں انگریزوں کے ہاتھ قتل کروادیا ، لہٰذا 1957ء پلاسی کی جنگ اور 1962 ءہندوستانی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1780 /82ء 1799ء تک ٹیپو سلطان کی جد وجہد آزادی میں شہادت ،میر جعفر کی غداری کی وجہ سے ہوئی ۔یہ گراں قدر شہادت غیرت مند محب وطن کے لیے بھُلا دیناآسان ہے ؟ جنھوں نے جنگ آزادی کے لیے پہلی بار جدید ہتھیار توپ اور راکٹ کا استعمال کیا تھا، جو آج بھی لندن کے میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔ یہ میزائل آج بھی پوچھ رہی ہے۔ کہاں کہاں سےمٹاؤگے مجھے؟1803ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک آزادی کو مزید بڑھاتے ہوئے ان کے صاحبزادےشاہ عبدالعزیز نے مشہور فتویٰ ’’دارالحرب‘‘ دیا، جو تحریک آزادی کے لیے ایک مترقبہ نعمت ثابت ہوا ۔
1857ء آزادی کی جد وجہد کا تیسرا ابتدائیہ کہا جاتا ہے۔ اس میں انگریز کو شکست سے دوچار کرنے والی کوئی اور نہیں بیگم حضرت محل ہیں ۔ پھر آگے بڑھتے ہیں تو علامہ فضل حق خیر آبادی کے رفقا جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جمعیت علمائے ہند کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا،مسلما نوں کی فلاح اور ہندوستان کی آزادی ہی اس تحریک کا مقصد تھا، مولانا محمود حسن دیوبندی،مولانا حسین احمد مدنی،عطاءاللہ شاہ بُخاری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی گوہر،مولانا ابو المحاسن سجاد بہاری،مولانا احمد علی لاہوری،مولانا ابو الکلام آزاد،حفظ الرحمن سیہاروی،مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا سید محمد میاں دیوبندی جیسے حضرات اس تحریک سے وابستہ تھے۔ اسی جمعیت نے انگریزی حکومت کو قبول نہ کرتے ہوئے ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ تیار کیا تھا، جس میں سراسر انگریزوں کی نافرمانی تھی،اور اس پہلی آزاد حکومت کا سربراہ راجہ مہندر پرتاپ کو بنایا گیا۔یہ ہے جمعیت کی تاریخ جسے سیاسی اور حکومت کے مؤرخوں نے یکسر نظر انداز کر دیا۔
تحریک ریشمی رومال سیاسی اور تاریخی دونوں اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔لیکن جتنی اہمیت اسکو ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل سکی۔آزادی کی لڑائی میں اس تحریک کا رول انتہائی اہم ہے،اس تحریک کے بانی شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تھے۔1912 میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن نے محسوس کیا کہ یہی ہندوستان کی آزادی کا صحیح وقت ہے،لہٰذا انہوں نے مشرق وسطی کے سلاطین کے پاس ہندوستان کی آزادی کے لیے خطوط لکھے،جن میں انہوں نے ترکی،افغانستان،ایران اور وسطی خلافت عثمانیہ کے متحدہ طاقتوں سے ہندوستان کی آزادی گزارش کی۔ عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا،اور خود ترکی و دیگر ممالک کے سفر پر روانہ ہو گئے تاکہ مسلم حکمرانوں سے مدد لےکر ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں۔ اسی سلسلے میں مولانا محمود حسن کی اپنے رفقاء سے خط و کتابت زرد رنگ کے رومال میں ہوتی تھی۔تاریخ میں یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی،جو خطوط پکڑے گئے وہ آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولیٹیکل اور سیکرٹریٹ شعبہ میں من و عن موجودہیں ہیں۔
چوری چورا کیس ہو یا 1930ء میں ہوئے سول نافرمانی اور نمک آندولن،1946ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک ۔ان تمام تحریکات میں ہمارے بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندستان کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ان کے ذکر کیے بغیر آزادی کی تاریخ ادھوری رہے جاتی ہے۔ ہمارے دیگر اہم مجاہدین میں ،نواب مظفر الدولہ،خان عبد الغفار خان، بدر الدین طیّب جی،بی امّاں،آصف علی،ارونا آصف علی،مولانا حسرت موہانی،حبیب الرحمٰن لدھیانوی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو،مولانا مظہر الحق،منظور احمد، عبید اللہ سندھی ، اعجازی،منظور احسن اعجازی،پیر شہید علی،وارث علی،،ڈاکٹر مختار احمد انصاری،ڈاکٹر ذاکر حسین،حکیم اجمل خان،بخت میاں ،رفیع احمد قدوائی،عنایت اللہ خان مشرقی،مولانا آزاد سبحانی،مولوی محمد باقر،شیخ بھکاری،محبوب احمد،شفیع داؤد،علی امام،حسن امام،محمد بخش سمرو،شاہ زبیر،عبد الماجد دریا آبادی،بی بی عزیز الفاطمہ،مولانا محفوظ الرحمٰن نعیمی،رضیہ سلطان،حامد علی فاروقی،سید فرحان مولانا محفوظ الحسن رحمانی اور ڈاکٹر سید محمودوغیرہ جیسے لوگ شامل ہیں۔لیکن آج کی نسل ان سے ناواقف ہے، اور اس لاعلمی کی وجوہات، میں بیان کر چکی ہوں ۔اب توآزاد ہندستان کے پہلے وزیر اعظم ،پہلے وزیر تعلیم،اور پہلے صدر کے نام تک نئی نسل کے ذہن سے محو کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔اسکول و مدارس کے نصاب سے ان کے نام حذف کیے جارہے ہیں،اور ہندستان کی نئی تاریخ ایک مخصوص نظریاتی قلم سےلکھی جارہی ہے۔
Jabeen Nazan [email protected]